٧٢ جون، ٢٢٠٢
تحریر احمد سعید
انڈیا میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی معروف کارکن اور صحافی تیستا ستلواد کو ریاست گجرات کی انسداد دہشت گردی پولیس نے ہفتے کی دوپہر کو ان کی ممبئی کی رہائش گاہ سے حراست میں لے لیا. ان کی گرفتاری انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان کے چند گھنٹوں کے اندر عمل میں آئی جس میں شاہ نے کہا تھا کہ تیستا ستلواد نے گجرات میں سنہ دو ہزار دو میں ہونے فسادات میں اس وقت کے ریاستی وزیر اعلی اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے حوالے سے پولیس کو بے بنیاد معلومات فراہم کی تھی۔
پولیس نے تیستا ستلواد کے علاوہ گجرات کے سابق پولیس سربراہ کو بھی گرفتار کیا ہے جب کہ ایک مقامی عدالت نے دونوں افراد کو دو جولائی تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے. پولیس کے مطابق وہ انسانی حقوق کی کارکن سے جعل سازی اور مجرمانہ سازش کے حوالے سے درج مقدمات میں تفتیش کر رہی ہے اور ان کو تفتیش میں ملزمہ کی طرف سے عدم تعاون کیا جا رہا ہے۔
گجرات کے فسادات جو کے ایک ٹرین کو جلانے کے بعد شروع ہوئے تھے اس میں ایک اندازے کے مطابق دو ہزار افراد، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ، ہلاک ہو گئے تھے۔
تیستا ستلواد کی گجرات فسادات کے متاثرین کے لئے جد و جہد
تیستا ستلواد دو ہزار دو سے مختلف عدالتی فورمز اور سول سوسائٹی کے پلیٹ فارم پر گجرات کے فسادات میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثا کو انصاف دلانے کے لئے سرگرم تھیں اور وہ اس حوالے سے نریندر مودی کی سخت ناقد تھیں۔ اس حوالے سے تیستا ستلواد نے سٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس کے نام سے ایک این جی او بھی بنائی تھی اور اس حوالے سے کئی افراد کے مقدمات کو عدالتوں میں لے کر گئی تھیں۔
چوبیس جون کو انڈیا کی سپریم کورٹ نے گجرات فسادات میں ہلاک ہونے والے کانگریس کے ممبر اسمبلی احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے اسپیشل انویسٹیگیشن ٹیم کی رپورٹ کو برقرارر کھا تھا جس میں نریندر مودی سمیت دیگر 63 افراد کو بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ستلواد کے سخت ریمارکس بھی دیے. عدالت نے لکھا کہ تیستا ستلواد نے ذکیہ جعفری کے احساسات کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش بھی کی۔
‘تیستا ستلواد کی گرفتاری سب کے لئے پیغام ہے’
انسانی حقوق کی عالمی اور علاقائی تنظیموں نے تیستا ستلواد کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کو فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا. ایمنسٹی انڈیا نے اپنے بیان میں گرفتاری کو انسانی حقوق کے کارکنوں کے لئے انتقامی کاروائی قرار دیا. بیان میں کہا گیا کہ “یہ (گرفتاری) سول سوسائٹی کے لئے ایک سنسنی خیز پیغام ہے جس سے ملک میں اختلاف رائے کے لئے جگہ مزید سکڑ جاے گی”۔
جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ساؤتھ ایشیا فار ہیومن رائٹس کی نمائندہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے یہ حکم نا خوفناک ہے جس کی نہ ماضی میں کوئی مثال ملتی ہے اور نہ ہی یہ قابل قبول ہے. ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے انسانی حقوق کے کارکنوں کو پیغام جاتا ہے کہ اگر سچ کے ساتھ کھرے رہو گے تو ایسے ہی اٹھا لئے جاو گے۔
تیستا ستلواد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک نہ جھکنے والی عورت تھی جنہوں نے تمام دھمکیوں اور خطرات کے باوجود دو دہائیوں تک گجرات کے متاثرین کو انصاف دلانے کی کوشش کی. ان کاکہنا تھا تیستا ستلواد اب بھی باہر آ کے اپنی جد و جہد وہاں سے ہی شروع کریں گی جہاں انہوں نے چھوڑا تھا۔
تیستا ستلواد کے عالمی اعزازات
تیستا ستلواد نے ١٩٨٣ میں صحافت کا آغاز کیا تھا اور دس برس تک وہ مرکزی دھارے کی صحافت کرتی رہی مگر ١٩٩٣ کے ہندو مسلم فسادات کے بعد انہوں نے اپنے شوہر جاوید آنند کے ساتھ مل کر ” کوممنلسم فائٹ” کے نام سے ایک ماہانہ جریدہ نکالا جس میں فرقہ واریت اور تعصب کے خاتمے کے حوالے سے تحقیقاتی کام ہوتا تھا۔
تیستا ستاواد اور ان کے شوہر نے فسادات میں متاثرہ افراد کے لئے ہمیشہ اٹھائی اور ان کی ہی کوششوں سے ہی گجرات فسادات کے بہت سے متاثرین کو سینٹرل گورنمنٹ سے مالی امداد بھی دی تھی. ان کی ان خدمات کے عوض ان کو مختلف قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔
٢٠٠٤ میں تیستا ستلواد کو گجرات فسادات کے حوالے سے جد و جہد کرنے کے لئے نریم برگ انٹرنیشنل ایوارڈ براۓ انسانی حقوق بھی دیا گیا تھا۔