٢٠ اپریل ٢٠٢٢
تحریر: احمد سعید
لاہور
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اور حال ہی میں بننے والی کثیر الجماعتی حکومت کے اتحادی اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت اس وقت تک شہباز شریف حکومت کا حصہ نہیں بنے گی گی جب تک چاغی اور نو کنڈی میں سیکورٹی فورسز کی طرف سے فائرنگ کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کروا کر ذمے دران کو قانون کے مطابق سزا نہیں دی جاتی۔
آج نیوز کے پروگرام سپاٹ لائٹ میں صحافی منیزے جہانگیر سے بات کرتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا وزیر اعظم شہباز شریف نے انھیں کابینہ میں شامل ہونے کے لئے اصرار کیا تھا مگر انہوں نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بغیر وزارتوں کا حلف اٹھانے سے معذرت کر لی ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وزارتوں سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
چاغی کے حالات کشیدہ کیوں؟
بلوچستان کے ضلع چاغی میں حالات تاحال کشیدہ ہیں اور اس کی وجہ چودہ اپریل کو پاک افغان سرحد کے قریب پیش آنے والا ایک واقعہ ہے جس میں ایف سی نے ایک چیک پوسٹ پر نہ رکنے پر ایک ٹرک ڈرائیور حمید اللہ کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
کچھ مقامی افراد نے یہ بھی دعوی اس کے بعد ایف سی نے سرحد کی جانب جانے والے کچھ ٹرکوں کے ٹائروں کو گولیاں مار کر ناکارہ بنا دیا اور ان ریڈی ایٹر میں ریت ڈال دی تھی۔ اس وجہ سے ٹرک ڈرائیورز صحرا میں پھنس گے اور بھوک اور پیاس کی شدت سے کچھ ڈرائیورز ہلاک ہو گے تھے۔ تاہم آزاد ذرائع نے اس دعوی سے تصدیق نہیں کی۔
چاغی واقعے کے خلاف اٹھارہ اپریل پیر کے روز نوکنڈی میں مقامی افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا جس پر ایف سی کے اہلکاروں نے فائرنگ کر دی جس میں کم از کم سات افراد زخمی ہو گے تھے۔ اس واقعے کے خلاف بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے شدید احتجاج کیا تھا اور ایک ٹویٹ میں یہ کہا تھا ان کی ترجیح بلوچستان اور اس کی عوام ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
‘تحریک انصاف بلوچستان کے مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں تھی’
اختر مینگل نے سپاٹ لائٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ان کے آج بھی حکومت سے کم و بیش وہ ہی مطالبات ہیں جو انہوں نے دو ہزار اٹھارہ میںپاکستان تحریک انصاف حکومت کی حمایت کے وقت چھ نکات کی صورت میں پیش کے تھے۔ اختر مینگل کا کہنا تھا تحریک انصاف کی حکومت بلوچستان کے مسائل میں سنجیدہ نہیں تھی اور اس نے مسائل کے حل کے لئے کو کمیٹی قائم کی تھی اس کا ایک بھی اجلاس نہیں ہو سکا تھا۔
واضح رہے کہ اختر مینگل جون دو ہزار بیس میں اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کی حمایت سے دستبردار ہو گے تھے۔ بی این پی مینگل نے تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وزارتیں لینے نے ان کر کر دیا تھا۔
‘اگر بلوچستان کے مسائل کے حل اختیار نہیں تو اسے ایک مقبوضہ علاقہ قرار دے دیں’
اس سوال کے جواب میں کہ کیا وفاقی حکومت کے پاس بلوچستان کے مسائل کے حل کا اختیار موجود ہے بھی یا نہیں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے اور اسے بھی ویسے ہی ٹریٹ کرنا چاہئے جیسے دوسرےصوبوں کو کیا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر یہ کھل کر کہ دیا جاے کہ بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے اور پھر نہ ہم آپ سے کچھ مانگیں گے اور نہ ہی کچھ امید رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگ ہمیں غدار اور پاکستان کا وفادار کہہ رہے ہیں اگر ہم پارلیمانی سیاست سے مایوس ہوگئے تو ہمارے پاس کونساراستہ بچے گا۔
‘الیکٹڈ حکومت سے زیادہ امیدیں ہیں’
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان کو اس حکومت سے زیادہ امیدیں اس لئے ہیں کیوں کہ یہ ایک سلیکٹڈ کی بجاۓ ایک الیکٹڈ حکومت ہے. تاہم ان کا کہنا تھا عمران کی حکومت لانے کے گناہ میں وہ بھی حصے دار تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا بلوچستان میں بہت عرصے سے سلیکٹڈ حکومتوں کو لایا جاتا رہا ہے۔
بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے اختر منگل کا موقف تھا کہ اگر وہاں کی اسمبلی میں کوئی ایسی تحریک آتی ہے تب وہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر یہ سوچیں گے کہ کیا وہ لوگ کوئی بہتر تبدیلی لا بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بی این پی مینگل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پی ڈی ایم میں کوئی بات نہیں ہے اور اگر ان انھیں صدر کے عہدے کے حوالے سے کوئی آفر ہوئی تو بھی قبول نہیں کریں گے کیوں کہ صدر بننا ان کے مرحوم والد کی نصحیت کے خلاف ہوگا۔