سٹاف رپورٹ
اسلام آباد آج پاکستان کی نئی کابینہ کی تقریب حلف برداری نے پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت میں بنی اتحادی حکومت کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔ اس حکومت کو لانے اور عمران خان صاحب کی حکومت کو گھر بھیجنے میں شمالی و جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پشتون قوم پرست ممبران قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ جب ایک ایک ووٹ قیمتی تھا اور پیسوں، ٹکٹوں اور عہدوں کی تقسیم کی افواہیں تھیں تو ان ممبران نے غیر مشروط طور پر اس وقت کی اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ آج جب یہ ماضی کی اپوزیشن حکومت میں ہے تو یہ ممبران اپنے فیصلے کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟ اسی سوال کے جواب کی تلاش میں وائس پی-کے کی بانی مدیر منیزے جہانگیر نے محسن داوڑ کے ساتھ کی خصوصی گفتگو۔ بات چیت کا آغاز علی وزیر سے ہوا جو نام نہاد بغاوت کے مقدمات میں قریب پندرہ ماہ سے قید ہیں- محسن داوڑ کے مطابق “یہ مسٔلہ اب حل ہو جانا چاہیے اور یہ بات ہم مسلم لیگ ن کی قیادت سے کئی بار کہہ چکے ہیں۔ اب اگر ‘ہائبرڈ’ نظام چلا گیا ہے تو اس کے کئے ہوئے اقدامات کو بھی ختم کر دینا چاہیے ورنہ ہم سمجھیں گے کہ یہ سارا معاملہ (جمہوریت کا نہیں بلکہ) چند لوگوں کے مفادات کا تھا۔” ساتھ ہی ساتھ انہوں نے انکشاف کیا کہ “حکومت بننے کے بعد سے اب تک علی وزیر کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہی اور نا ہی ان کے خلاف مقدمے واپس لینے کا کوئی اشارہ دیا گیا ہے۔ حالانکہ حکومت بننے سے پہلے وہ (اپوزیشن جماعتیں) متفق تھیں کہ یہ مقدمات ختم ہونے چاہیے۔” آج کی تقریب حلف برداری سے قبل صحافتی حلقوں میں امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ محسن داوڑ صاحب کو وزارت انسانی حقوق کا قلم دان سونپا جا سکتا ہے مگر ایسا نا ہو سکا۔ لیکن محسن وزارت نا ملنے پرغمزدہ نظر نا آئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ “وزارت کی پیشکش تو ہمیں عمران خان نے بھی کی تھی، ہم نے قبول نہیں کی۔ اس بار بھی وزارت نہیں مانگی میڈیا ہی میں ایسی کوئی باز گشت سنی۔ پھر میڈیا اور مسلم لیگ ن کی قیادت سے سنا کہ اسٹیبلشمنٹ میرے نام پر خوش نہیں۔ لیکن وزارت میرے لئے اہم نہیں۔” انہوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ مسلم لیگ کی یہ حکومت وزارتوں کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت کر رہی ہے۔ محسن داوڑ کے مطابق ان کی توجہ وزارت کی بجائے پشتون تحفّظ تحریک اور اپنی سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے دیرینہ مطالبات پر زیادہ مرکوز ہے۔ سابقہ فاٹا سے فوج کے انخلا، قبائلی علاقوں کو فنڈنگ کی فراہمی، ماورائے عدالت قتل اور لاپتہ افراد جیسے مسائل کا حل ان کے لئے اپنے ذاتی مفادات سے اہم ہے اور اسی لئے وہ نئی حکومت سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ خبردار بھی کر رہے ہیں کہ اگر یہ حکومت ان مسائل کا حل کرنے میں ناکام رہی تو سویلین بالادستی جیسے نعروں سے چھوٹے صوبوں کا ایمان مکمل اٹھ جائے گا۔
Home صوبوں کے مسائل
“نا پسندیدہ” !داوڑ کا سویلین حکومت کو کڑا پیغام: ابھی یا کبھی نہیں!
آج پاکستان کی نئی کابینہ کی تقریب حلف برداری نے پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت میں بنی اتحادی حکومت کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔ اس حکومت کو لانے اور عمران خان صاحب کی حکومت کو گھر بھیجنے میں شمالی و جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پشتون قوم پرست ممبران قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ جب ایک ایک ووٹ قیمتی تھا اور پیسوں، ٹکٹوں اور عہدوں کی تقسیم کی افواہیں تھیں تو ان ممبران نے غیر مشروط طور پر اس وقت کی اپوزیشن کا ساتھ دیا۔