٢٥ مارچ ٢٠٢٢
تحریر احمد سعید اور زری جلیل
لاہور
لاہور کے علاقے چوہنگ میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں بڑی تعداد میں کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کی فلمبندی کے الزامات سامنے آے ہیں۔ والدین نے تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے ثبوت مٹانے کا الزام عائد کیا ہے۔
متاثرہ بچوں میں سے ایک چھ سالہ لڑکے نے وائس پی کے سے رازدرانہ ماحول میں بات کرتے ہوئے ان واقعات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ متاثرہ لڑکے کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اس کے علم میں کم از کم چھ اور کم عمر بچے بھی اسی طرح سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔
لاہور کےچوہنگ تھانے میں پچھلے ڈیڑھ مہینے کے دوران کم از کم چار کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دوران زیادتی فلمبندی کے مقدمات درج ہوئے ہیں۔
اہل علاقہ کے مطابق جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد کافی زیادہ ہے مگر لوگ بدنامی کے ڈر سے سامنے سے کترا رہے ہیں جب کہ کچھ خوف کی وجہ سے اپنا گھر بھی بدلنے پی مجبور ہیں۔
والدین کے مطابق یہ کام ایک منظم گینگ کر رہا ہے جس نے بچوں کو گھیرنے کے لئے سوسائٹی کے ہی چودہ پندرہ سال کے بچوں کو استمعال کیا جا رہا ہے۔
تاہم والدین کے مطابق پولیس نے معاملے کو سنجیدہ لینے کی بجاۓ واقعے کو دبانے کی کوشش کی حتی کہ متاثرہ بچوں کے والدین کے مطابق پولیس نے ملزمان کے فون سے ویڈیوز خود ہی ڈیلیٹ کر دی ہیں۔
وائس پی کے کو موصول ہونے والی ایک ایسی ہی ویڈیو میں اس واقعے میں نامزد ایک ملزم بچے کو شراب پیتے اور سگریٹ نوشی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جب کہ ایک اور ویڈیو میں جنسی عمل کے دوران ایک کم عمر لڑکا منشیات کے زیر اثر نظر آ رہا ہے۔
مبینہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے ایک لڑکے کے والد کا کہنا تھا کہ ملزمان نے ان کے بیٹے کی قابل اعتراض حالت میں ویڈیو بنا کے اسے بلیک میل کر کے اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔ جب کے ان کے بیٹے ملزمان کو ان کا لا سنس پسٹل اور انیس ہزار روپے بھی چوری کر کے پہنچاے تھے۔
متاثرہ بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ پولیس نے پندرہ سال کے دو بچوں کو تو گرفتار کر لیا ہے مگر ان کے پیچھے موجود سر گرم گینگ کو گرفتار نہیں کیا جا رہا۔
اس کے علاوہ پولیس افسران نے والدین کو یہ تک کہا کہ اگر آپ کے الزامات سچ ہیں تو ثبوت خود لے کر آییں۔ کچھ والدین نے اپنی مدد آپ کے تحت ملزمان کے ساتھیوں کو ٹریس کیا جس میں سے ایک نے وعدہ معاف گواہ بننے کی شرط پر تحریری طور پر حلفیہ بیان میں بچوں کی نا زیبا ویڈیوز بنانے اور انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنے کا اعتراف کیا ہے مگر اس سب کے باوجود بھی پولیس نے تفتیش کا دائرہ کار وسیع نہیں کیا۔
اس حوالے سے جب وائس پی کے نے متعلقہ چوکی انچارج سے بات ا تو انہوں نے شواہد ضائع کرنے کی تردید کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے میں ایسا کوئی وقوعہ نہیں ہوا اور بچوں کے والدین شہرت کے لئے ایسے مقدمات درج کروا رہے ہیں۔
مرکزی ملزم کی والدہ نے تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ اگر ان کے بیٹے خلاف کوئی بھی ثبوت موجود ہے تو وہ منظر عام پر لانا چاہئے۔
پولیس نے مقدمات تعزیرات پاکستان کی دفعہ ٣٧٧ کے تحت درج کے ہیں جب کہ نئے ریپ ایکٹ کے مطابق ان واقعات کو ٣٧٦ کے تحت درج ہونا چاہئے تھا اور اس کی تفتیش بھی گریڈ سترہ کے افسر کو کرنی چاہئے تھی۔