٢٦ جولائی ٢٠٢٢
تحریر احمد سعید
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر ان کی ملک سے غیر موجودگی اور گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران سپریم کورٹ کے ججز کی خالی اسامیاں پر کرنے کے لئے ٢٨ جولائی کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلانے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے انھیں دو ہزار تین سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ایک دستاویز بذریعہ ویٹ ایس اپپ بھیجی مگر وہ صرف چودہ صفحات ہی پڑھ سکے جس کے بعد ان کے موبائل کی سٹوریج فل ہوگی اور انھیں تاحال پوری دستاویز بذریعہ کورئیر موصول نہیں ہوئی اس لئے جسٹس عیسی نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ وہ ٢٨ جولائی کا اجلاس ملتوی کر دیں اور پہلے ججز تعیناتی کے حوالے سے مل کر یہ طے کر لیا جاے کہ آگے کس طرح چلنا ہے۔
‘آئین کی خلاف ورزی کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قواعد کا حوالہ دیا جاتا ہے’
جسٹس عیسی نے خط میں مزید لکھا کہ اس سے قبل ٢٨ جون کو بلاۓ گے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الحسن کے سوا دیگر تمام ممبرز کے کہنے پر اس لئے ملتوی کر دیا گیا تھا کیوں کہ گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے سینئر جج غیر حاضر تھے۔ جسٹس عیسی نے سوال اٹھایا کے جب اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو پھر کمیشن کا اجلاس دوبارہ بلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔
خط میں کہا گیا کہ چھٹیوں میں اجلاس بلانے سے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس یہ نہیں چاہتے کہ سینئر جج کمیشن کے اجلاس میں خود شریک ہوں اور ایسا کرنا صریحا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس نے پانچ ہائی کورٹ ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کے لئے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ٢٨ جولائی کو طلب کیا ہوا ہے۔ تاہم خط میں جسٹس عیسی نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ فی الوقت سپریم کورٹ میں صرف چار ججز کی اسامیاں خالی ہیں جب کہ ایک جج جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ١٣ اگست کو ریٹائرڈ ہونا ہے۔ جسٹس عیسی نے لکھا کہ آئین کا آرٹیکل ١٧٥ (٨) اس طرح کی متوقع’ اسامی کو پُر کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی وہ چیف جسٹس کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اکیلے تعیناتی کے لئے نام تجویز کریں، جو جے سی پی کا واحد استحقاق ہے۔ تاہم، آئین کی خلاف ورزی کرنے کے لیے بری طرح سے لکھے گے جوڈیشل کمیشن کے قواعد کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ پر ریٹائرمنٹ سے قبل پانچ ججز کی تعیناتی کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے
جسٹس عیسی اس حوالے سے مزید لکھتے ہوئے کہتے ہیں جسٹس سجاد علی شاہ بطور ممبر جوڈیشل کمیشن اپنے جانشین کو چننے کے لئے خود اجلاس میں موجود ہوں گے جو کہ غیر آئینی عمل ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ “پاکستان میں بادشاہت نہیں ہے جس میں بادشاہ اپنے جانشینوں کا فیصلہ کرتے تھے۔ اگر اس کی اجازت دی جاتی ہے تو چیف جسٹس اگلی بار ‘متوقع خالی آسامیوں’ کو پُر کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن کی “ایک میٹنگ بلا سکتا ہے جس میں ایسی تمام اسامیاں کو بھی پر کیا جا سکتا ہوگا جو موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہوں گی”۔
خط میں کہا گیا کہ ججوں کی ریٹائرمنٹ سے قبل نامزدگی یا تقرری آئین کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کو چیف جسٹس کی مرضی یا خواہش کے مطابق نہیں آئین کے مطابق چلانا ہوگا. جسٹس عیسی اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ “سپریم کورٹ نے بارہا کہا ہے کہ وہ فیصلے جن کا طویل مدتی اثر ہوتا ہے وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے کسی کو نہیں کرنے چاہیے۔ غالباً یہ بھی ایک وجہ تھی جس کی وجہ سے محترم جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب کسی بھی جج کی تقرری کی سفارش کرنے سے صاف انکار کردیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ صرف دو ہفتے مزید جج رہیں گے تاہم ان پر پانچ ججوں کی سفارش کرنے کا بوجھ ڈالا گیا ہے جو برسوں اس عہدے پر رہیں گے”۔
جسٹس عیسی نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے استدعا کی کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کا معاملہ انتہائی احتیاط اور مناسب غور و فکر کا متقاضی ہے کیونکہ یہ انتہائی نازک معاملہ ہے۔ چیف جسٹس براہ کرم آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن اور اپنے نامزد امیدواروں کی تضحیک نہ کریں۔ جوڈیشل کمیشن کو صرف چیف جسٹس کے پہلے سے منتخب کردہ نامزد افراد پر غور کرنے پر پابندی لگانا نامناسب ہے۔
‘چیف جسٹس کو جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہونے کے علاوہ کوئی اضافی اختیار نہیں ہے’
جسٹس عیسی نے نے خط میں چیف جسٹس کی طرف سے کی پانچ نامزدگیوں پر بھی اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ اسلام آباد اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز کو نظر انداز کر کے چیف جسٹس نے ان علاقوں میں پہلے سے موجود احساس محرومی کو مزید تقویت بخشی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ان نامزدگیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ چیف جسٹس ریورس انجینرنگ سے کام لے رہے ہیں، پہلے وہ نامزدگی کرتے ہیں اور پھر اس کے لئے جواز بنا لیتے ہیں۔
خط میں یہ کہا گیا کہ تمام تقرریاں آئین کے مطابق پہلے سے طے شدہ اور غیر امتیازی معیار کی بنیاد پر کی جانی چاہئیں اور یہ کہ آئین چیف جسٹس کو ماسواۓ جوڈیشل کمیشن’کے سربراہ ہونے کے کوئی اضافی اختیارات تقویض نہیں کرتا ہے۔ “آئین کا آرٹیکل ١٧٥-اے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے موضوع پر بالکل واضح ہے اور اس کا سختی سے اطلاق ہونا چاہیے۔ آئین جوڈیشل کمیشن کو پارلیمانی کمیٹی میں ججوں کو نامزد کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ چیف جسٹس یکطرفہ طور پر کام نہیں کر سکتے۔ اگر جوڈیشل کمیشن کی طرف سے بنائے گئے قواعد جو اس کے کام کاج کو چلانے کے لیے آئین کے خلاف کچھ کہتے ہیں تو اس کو نظر انداز کیا جانا چاہیے، نہ کہ آئین کو”۔
خط میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کی منظوری کے بغیر ایک سوالنامہ تیار کیا، معلومات اور دستاویزات جمع کیں، اسے مرتب کیا اور ٢٣٤٧ صفحات ہمارے غور کے لیے پیش کر دے۔
سپریم کورٹ کے ججز کے احتساب کا بھی مطالبہ
جسٹس عیسی نے لکھا کہ کچھ ججز کی بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی کے لئے چیف جسٹس نے فیصلے لکھنے میں تاخیر کو نااہلی کے عنصر کے طور پر ذکر کیا ہے۔ جسٹس عیسی نے کہا کہ۔ اگر یہ معیار ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے تو آئیے ہم بھی خود غور کریں اور تھوڑا سا خود احتسابی کریں۔ چیف جسٹس کو یہ معلوم کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں کے سروے کا حکم دینا چاہیے کہ چیف جسٹس اور ہر جج اوسطاً کتنا وقت لے کر فیصلے لکھتے ہیں اور ‘شارٹ آرڈرز’ کے ذریعے کتنے کیس نمٹائے جاتے ہیں اور شارٹ آرڈر کے کتنے عرصے بعد تفصیلی فیصلہ آتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی پتا کیا جاے کہ اب تک کتنے شارٹ آرڈرز کے تفصیلی فیصلوں کا انتظار ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ شارٹ آرڈر جاری کرنا ایک نئی اختراح ہے کیوں کہ آئین کے آرٹیکل ١٨٩ میں سپریم کورٹ کے ‘فیصلوں’ کا ذکر ہے، ‘مختصر احکامات’ ایک ایسی ایجاد ہے جس کی آئین میں منظوری نہیں دی گئی ہے۔