منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ 2022 میں

0
61
منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ 2022 میں

١٧ مئی ٢٠٢٢

تحریر ریحان پراچہ


لاہور

پاکستانی جیلوں میں١٧ غیر ملکی اپنی سزا مکمّل ہونے کے باوجود ایک دہائی سے زائد عرصے سے قید میں سڑ رہے ہیں۔ ان افراد کا ذہنی توازن درست نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کئی سالوں سے قومیت کی شناخت نہیں ہو پا رہی تاکے ان کو اپنے ملک بھیجا جاسکے۔ ان ١٧ قیدیوں میں سے چار خواتین ہیں۔

وفاقی وزارت داخلہ نے کچھ عرصہ قبل ٨١ ذہنی طور پر معذور قیدیوں کے بارے میں معلومات کے لیے اپنی ویب سائٹ پر ایک عوامی اپیل آویزاں کی تھی۔ یہ افراد غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے جرم میں اپنی قومیتوں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے کئی سالوں سے ملک بدری کے منتظر تھے۔

اسی طرح اسلام آباد میں ہندوستانی ہائی کمیشن نے بھی اپنی ویب سائٹ پر ٨١ ذہنی طور پر معذور قیدیوں کی تفصیلات ڈالی ہیں، جس میں ہندوستان میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنی شناخت کے بارے میں کوئی بھی معلومات فراہم کریں۔

صرف ایک قیدی، جسے ٢٠١٣ میں گرفتار کیا گیا تھا، اپنی سزا پوری کرنے کے بعد واپس بھیجا گیا تھا۔ تاہم باقی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔

تاہم بھارتی سرکاری ذرائع نے وائس پی کے کو بتایا کہ ان قیدیوں میں سے ایک پلان شرما ولد پونی شرما ہے، جسے ٤ فروری ٢٠٢١ کو گرفتار کیا گیا تھا اور جو ٢٠ مارچ ٢٠١٣ سے نظر بند تھا، کو اس کی سزا پوری ہونے پر واپس بھارت بھیج دیا گیا تھا۔ بھارتی سرکاری ذرائع کے مطابق ان ٨١ لوگوں میں شرما واحد شخص تھا جس کی تصدیق ہندوستانی شہری کے طور پر ہوئی تھی اور اگست ٢٠٢١ میں اسے وطن واپس لایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ پر فہرست میں اب پلان شرما کا نام درج نہیں ہے۔

پاکستانی وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کو پاکستان میں غیر قانونی داخلے پر غیر ملکیوں کے ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔

نوٹیفکیشن میں لکھا ہے کہ یہ ذہنی طور پر معذور ہیں اور اپنے ملک یا شناخت کے بارے میں بتانے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے اپنی سزائیں پوری کر لی ہیں لیکن شناخت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ملک بدر یا رہا نہیں کیا جا سکتا۔

بھارتی ہائی کمیشن کی طرف سے پوسٹ کی گئی فہرست میں ان قیدیوں کی عمر، ان کے شناختی نشانات اور وہ کس علاقے سے ہیں  کے بارے میں تھوڑی سی مزید تفصیل دی گئی ہے۔

مثال کے طور پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایک غیر ملکی جو کہ سننے اور گویائی کی صلاحیت سے محروم ہے وہ تقریباً ٢٠ سال سے ’’پاکستانی جیل‘‘ میں قید ہے۔ ٢٦ مارچ ٢٠٠٢ کو گرفتار ہونے والے نامعلوم غیر ملکی نے ٢٧ جون ٢٠٠٢ کو اپنی تین ماہ کی سزا پوری کی لیکن آج تک اس کی رہائی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس ٥٠ سالہ شخص کی آنکھ کے بھنویں کے بائیں جانب کالا تل ہے۔

بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ اور وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر قیدیوں کے نام اور جسمانی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں، تاہم سرحد کے دونوں جانب کسی کی طرف سے ابھی تک ان کی قطعی شناخت کے بارے میں دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر دو الگ الگ نامعلوم نوٹیفکیشنز میں، عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ ان غیر ملکیوں کے بارے میں کوئی بھی معلومات وزارت داخلہ کے حکام کو درج کردہ رابطہ نمبر پر فراہم کریں۔ نوٹیفکیشن میں ذہنی طور پر معذور قیدیوں کی تصاویر اور نام ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔ نوٹیفکیشن میں ان کی گرفتاری کی تاریخ اور ان کی سزا کی تکمیل کی تاریخ کا ذکر ہے۔

ان میں سے دو خواتین پاکستانی جیلوں میں ١٥ سال سے زیادہ عرصے سے قید ہیں۔ ان چار ذہنی طور پر معذورخواتین میں سے نکیا نامی خاتون  پاکستان میں سب سے طویل عرصے سے اسیر  ہے۔ اس کو ٣٠ اپریل ٢٠٠٧ کو گرفتار کیا گیا اور ١٠ ستمبر ٢٠٠٧ کو اس نے اپنی سزا پوری کی۔

 بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق، نکیا یا نقیا، جو ‘نکیا’ اور ‘سیما’ کے القاب سے بھی جانی جاتی ہے، کا ممکنہ تعلق  ہندوستان کی ریاست بہار سے ہے۔ اس کی عمر تقریباً ٤٥ سال ہے اور اس کی بائیں آنکھ کے قریب ہلکا نشان  ہے جو اسکی  شناختی نشان کے طور پر دیا گیا ہے۔

اسما مسکان جسے ١٠ مئی ٢٠٠٧ کو گرفتار کیا گیا تھا اور ١٢ ستمبر ٢٠٠٧ کو اپنی سزا مکمل کی تھی، وہ بھیا، دیوی اور لکشمی کے القابات سے پکاری  جاتی ہے – اس کی عمر تقریباً ٣٤ سال ہے۔ بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق اس کے ماتھے پر ہلکے زخم  کا  نشان اور گردن پر تل کا نشان ہے۔

دیگر دو خواتین میں اجیرا ولد اسمولہ ہیں، جنہیں ١٣ مئی ٢٠٠٩ کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس نے ٢٢ مارچ ٢٠٠٩ تک اپنی سزا کاٹی۔ اور گلو جان زوجہ  نندراج، جسے ١٧ اکتوبر ٢٠١١ کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ سرحد عبور کرنے کے جرم میں اپنی تین ماہ کی سزا پوری ہونے کے بعد بھی تب سے جیل میں ہے۔ اجیرا کا نام بھارتی  فہرست میں ‘اجبیرا’ اور ‘اجیرن’ کے علاوہ  ‘اجمیرا’ بھی درج کیا  گیا ہے۔ اس کی عمر تقریباً ٣٠ سال ہے اور وہ بھارتی  ریاست مغربی بنگال کی رہائشی ہے۔ اس کا شناختی نشان  نچلا موٹا ہونٹ درج ہے۔

دریں اثناء مرد قیدی اسمو مسکان کو ٢٣ جنوری ٢٠٠٤ کو اپنی سزا پوری ہونے کے باوجود پاکستان میں ١٨ سال تک قید رکھا گیا۔ ٣٤ سالہ غیر ملکی کو ٢٤ دسمبر ٢٠٠٣ کو غیر قانونی سرحد عبور کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

سلورف سلیم کو ٢٣ جولائی ٢٠٠٩ کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ٩ جنوری ٢٠١٠ کو اپنی سزا کی تکمیل کے بعد سے پاکستان کی جیل میں نظر بند ہے۔  وہ بھرم پور کا رہنے والا بتایا جاتا ہے۔

کشوا بھگوان ولد چننوان عرف چالان وان کو ٧ اپریل ٢٠١٠ کو گرفتار کیا گیا تھا، اس نے ٧ جولائی ٢٠١٠ کو اپنی سزا پوری کرنے کے بعد تقریباً ١٢ سال قید میں گزارے۔

روپی پال ولد نان چندر پال  کو ٣ فروری ٢٠١٠ کو غیر قانونی سرحد عبور کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ہندوستان میں مغربی بنگال ریاست کے نادیہ ضلع کے گاؤں مدی کلیانی کا رہائشی ہے۔ ٣١ سالہ شخص کے دائیں کان کے پیچھے ایک تل ہے۔ وہ  7 جولائی ٢٠١٠ سے اپنی سزا پوری کر چکے ہیں ۔

بپلا ولد ماسٹر کالا ریاست اتر پردیش کا رہنے والا بتایا جاتا ہے۔ ٣٥ سالہ شخص کی بائیں ٹھوڑی پر  زخم کا  نشان ہے ۔ راجو رائے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بھارتی ریاست بہار کا رہائشی ہے۔  اسے ١٩ جولائی ٢٠١٠ کو گرفتار کیا گیا اور ٢٩ مارچ ٢٠١١ سے حراست میں رکھا گیا۔

حامد ولد مرتش کو ١٣ فروری ٢٠٠٩ کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ اس نے ١٣ فروری ٢٠١٠ کو غیر قانونی بارڈر کراسنگ کے جرم میں اپنی ایک سال کی قید مکمل کی-سماعت اور گویائی سے معذور ایک اور نامعلوم غیر ملکی کو ١٣ مارچ ٢٠١٥ کو غیر قانونی بارڈر کراسنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے ٤ جنوری ٢٠١٧ کو اپنی سزا مکمل کی۔ اس شخص کی عمر ٣٠ سے ٣٥ سال کے درمیان ہے۔

شام سندر عرف گونگا بہرا بھی بولنے اور سننے سے معذور ہے۔ اس نے ٢٧ مارچ ٢٠١١ کو غیر قانونی بارڈر کراسنگ کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد تقریباً ١٠ سال قید میں گزارے۔ اس نے ٧ اپریل ٢٠١٢ کو اپنی سزا پوری کی۔ وہ بھارت کی ریاست بہار کا رہائشی بتایا جاتا ہے  ۔

راجو ولد سمیول مغربی بنگال کے ہگلی ضلع میں بولگھاٹہ ریل اسٹیشن کے نزدیک رائپارہ گاؤں کا رہنے والا بتایا جاتا ہے۔ ٢٥ سالہ شخص کے دائیں گال پر ایک چھوٹا سا تل ہے۔ اسے ٢٤ جنوری ٢٠١٥ کو گرفتار کیا گیا اور ٢٩ ستمبر ٢٠١٥ کو اس نے آٹھ ماہ قید  پوری کی۔

رمیش ولد سوامی کو ٦ دسمبر ٢٠١٣ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ٣٠ سالہ شخص کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کی ریاست گجرات کے علاقے  پوربندر کا رہائشی ہے۔ اس کی گردن کے دائیں جانب ایک تل ہے۔ رمیش نے ٢٧ مارچ ٢٠١٤ کو اپنی سزا پوری کی۔

راجو عرف لٹن ولد گوڈا کو ١٨ اگست ٢٠١٢ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے ١٧ نومبر ٢٠١٢ کو اپنی سزا پوری کی۔ وہ بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ پر ذہنی طور پر معذور افراد میں درج نہیں ہے۔

بھارتی حکام کو پاکستانی جیلوں میں ذہنی طور پر معذور ان غیر ملکی قیدیوں تک قونصلر رسائی دی گئی تھی لیکن وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ آیا یہ بھارتی شہری ہیں یا نہیں کیونکہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کی حالت ٹھیک نہیں تھی ۔

 ان قیدیوں کے بارے میں بھارتی  میڈیا پر بہت کچھ نہیں مل سکا۔ تاہم جون ٢٠٢١ میں دی ہندو میں شائع ہونے والی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے چھ سال قبل ١٧ (پہلے ١٨) ذہنی طور پر معذور قیدیوں کی صورتحال سے بھارت کو آگاہ کیا تھا۔

دریں اثنا، بھارتی سرکاری ذرائع کے مطابق، بھارتی ہائی کمیشن حکام کو پاکستانی جیلوں میں ذہنی طور پر معذور ان غیر ملکی قیدیوں تک رسائی دی گئی تھی، لیکن وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ آیا یہ بھارتی شہری ہیں یا نہیں، کیونکہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کی حالت خراب ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’بھارتی حکومت نے پاکستان کو ان غیر ملکی قیدیوں کا معائنہ کرنے کے لیے ہندوستانی طبی ماہرین کے دورے کی اجازت دینے کی تجویز دی تھی لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا‘‘۔

بھارتی سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ  اسی طرح نئی دہلی نے انسانی بنیادوں پر عمر رسیدہ قیدیوں کی رہائی پر غور کرنے کے لیے قیدیوں سے متعلق پاکستان  انڈیا جوڈیشل  کمیٹی کے احیاء کی تجویز بھی پیش کی۔ یہ کمیٹی ٢٠٠٧ میں  شہری اور ماہی گیر قیدیوں کی قانونی اور انسانی مدد کے لیے بنائی گئی تھی لیکن ٢٠١٣ سے اس کی میٹنگ نہیں ہوئی۔ اس میں دونوں طرف کے ریٹائرڈ جج شامل تھے۔

“مئی ٢٠٢٢ تک، تین ہندوستانی شہری ہیں جنہوں نے اپنی سزا پوری کر لی ہے لیکن ان کی قومیت کی تصدیق کے باوجود انہیں ملک بدر نہیں کیا گیا،” ہندوستانی سرکاری ذرائع نے مزید کہا۔ پاکستان کی جیلوں میں قید ٦٥٢ بھارتی ماہی گیروں میں سے ٣٣٥ نے اپنی سزائیں پوری کر لی ہیں لیکن انہیں بھارت ڈی پورٹ نہیں کیا گیا ہے۔

دریں اثنا، جنوری ٢٠٢٢ میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سویلین اور ماہی گیر قیدیوں  کے تبادلے کی فہرست کے مطابق، ہندوستان کے پاس اس وقت ٢٨٢ پاکستانی شہری قیدی اور ٧٣ ماہی گیر اس کی تحویل میں ہیں۔ متعدد بار وائس پی کے نے ترجمان  وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے رابطہ کیا لیکن ان ذہنی طور پر معذور قیدیوں کے   معاملے کے حوالے سے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کی جانب سے  کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

آج سے ساتھ دھایئوں قبل سعادت حسن منٹو نے اس پہ اپنا شہرہ آفاق افسانہ توبہ ٹیک سنگھ لکھا -اس تمام وقت کے گزرنے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے حکمران یقین اور پاگل پن کی درمیان اسی سرحد پر پھنسے ہوۓ ہیں –

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here