22 نومبر 2022


احمد سعید

ا س وقت ملک میں نئے آرمی چیف اور جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری کو لے کر ایک ہیجانی کیفیت برپا ہے_ جی ایچ کیو کی طرف سے چھ سینئر موسٹ لفٹیننٹ جنرلز کے ناموں کی فہرست وزیر اعظم ہاؤس کو موصّول ہو گی ہے

 

حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم اگلے چوبیس سے اڑھتا لیس گھنٹوں میں دو ناموں کی منظوری دے کر صدر کی رسمی منظوری کے لئے ایڈوائس ایوان صدر کو بھجوا دیں گے

 

سینئر قانون دان اور سابق وزیر قانون خالد رانجھا کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی ایک انتظامی معاملہ ہے اور صدر اس پر غیر معینہ مدت تک سائن کرنے سے گریز کر سکتے ہیں

 

تاہم کچھ دیگر آئینی ماہرین کے مطابق صدر آئین کے آرٹیکل 243 اور 48 کے تحت اس ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند ہیں مگر وہ زیادہ سے زیادہ پچیس دن وزیر اعظم کی ایڈوائس کو روک سکتے ہیں_ پچیس دن کے بعد سمری ازخود منظور تصور ہوتی ہے_
سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی کے مطابق صدر اس تاخیر کے نتائج سے باخوبی واقف ہیں اس لئے وہ ایسا کرنے سے گریز کریں گے_ ان کا کہنا تھا صدر اس معاملے میں گڑ بڑ نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں یہ مسلہ پورے پاکستان کو متاثر کرے گا_
سینئر قانون دان سلمان اکرم راجہ کے مطابق اگر صدر سمری روکتے ہیں تو معاملہ سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے مگر یہ کوئی خوشگوار صورت حال ہو گی

 

اگر صدر نے ایڈوائس کی منظوری میں تاخیر کی تو کیا ہوگا؟

صدر کی ایڈوائس کی منظوری میں تاخیر کی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت پوری ہونے کی صورت میں فوج کی کمان کون سنبھالے گا؟

 

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق ڈیفنس سیکرٹری لفٹیننٹ جنرل خالد نعیم لودھی کا کہنا تھا آرمی چیف کی کسی بھی صورت حال میں غیر مو جودگی میں فوج کی کمان از خود طور پر سینئر ترین کور کمانڈر کو منتقل ہو جاتی ہے_

 

ان کا مزید کہنا تھا کہ جیسے ہی صدر سمری کو منظور کریں گے تو وہ شخض آرمی چیف کا عہدہ سنبھال لیں گے جن کا نام وزیر اعظم نے منظور کیا ہوگا اور گر اس دوران ان کی ریٹائرمنٹ بھی ہو جاتی ہے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ نئے چیف کی بطور جنرل ترقی اسی دن سے شمار ہوتی ہے جب وزیر اعظم اسکی سمری منظور کر کے صدر کو بھجوا دیتے ہیں.

 

واضح رہے کہ اس وقت فوج میں سب سے سینئر کور کمانڈر جنرل ساحر شمشاد مرزا ہیں جو کہ راولپنڈی میں موجود ٹین کور کے کمانڈر ہیں جب کہ سب سے سینئر لفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر ہیں جو کہ اس وقت جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں_

 

کیا یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں کے کیا آرمی چیف کی تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، لطیف آفریدی کا موقف تھا کہ یہ معاملہ عدالت صرف تب ہی دیکھ سکتی ہیں جب کوئی سینئر جنرل درخواست گزار بن کر عدالت میں پیش ہوں

جنرل لودھی کے مطابق بھی عدالت صرف اس صورت میں معاملہ دیکھ سکتی ہے جب کوئی آرمی چیف کی دوڑ میں شامل سینئر جنرل اس معاملے کو پیٹتشن کی صورت میں عدالت کے سامنے رکھے اور یہ موقف اختیار کرے کہ جو تعیناتی ہوئی ہے اس میں آرمی ایکٹ کی صریحا خلاف ورزی کی گی ہے. تاہم ان کے مطابق ایسا نہ کبھی ماضی میں ہوا ہے اور نہ آئندہ ایسا ہونے کا کوئی امکان موجود ہے

مگر یاد رہے کہ جب سال 2019 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع دی گی تھی تب سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایک سویلین درخواست گزار کی پٹیشن پر فیصلہ کرتے ہوئے حکومت کو اس توسیع کے لئے چھ مہینے میں قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا

آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل شروع ہو چکا ہے مگر اس حوالے سے جاری افواہیں بھی عروج پر پہنچ گی ہیں اور اس وقت تمام نظریں صدر مملکت پر لگی ہوئی ہیں_ پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ چھبیس نومبر کو راولپنڈی پہنچے گا اور یہ ہی وہ دن ہوں گے جب صدر کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہے. کچھ سیاسی پنڈت لانگ مارچ کو آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے دباؤ بڑھانے کے ایک حربے کے طور پر دیکھ رہے ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here