28 نومبر 2022
از احمد سعید اور عون کاظمی
پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کے دور دراز کے گاؤں میں موجود دو کمروں کے ایک مکان کے صحن میں موجود مٹی کے چولہے کے قریب ایک بیٹھا چار سال کا بچہ بےدھیانی میں اپنی ہاتھ کی انگلیوں سے چولہے میں پڑی راکھ کو کرید رہا ہے.
چولہے کی راکھ ٹھنڈی ہو چکی ہے کیوں کہ یہ چولہا یکم اکتوبر سے نہیں سلگ پایا اور اس میں راکھ میں آہستہ آہستہ مٹی پڑ رہی.
اس چولہے میں لکڑیاں جلا کر اپنے چار بچوں کے لئے کھانا بنانے والی تیس سالہ نبیلہ کی یکم اکتوبر کو پراسرا حالات میں موت واقع ہوگی تھی. پولیس کے مطابق نبیلہ نے زہر کھا کر خودکشی کی تھی جب کہ اس کے گھر والے اسے ایک طے شدہ قتل سمجھتے ہیں.
نبیلہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہی تھی، اگر چہ گھر کے معاشی حالات بہتر نہ تھے مگر اس کے علاوہ ان کے گھر میں کوئی اور مسلہ نہیں تھا. نبیلہ کے شوہر کو وراثت میں تھوڑی سی زمین ملی تھی جس پر نبیلہ خود کھیتی باڑی کر کے گندم اور دیگر اجناس اگاتی تھی جب کہ اس کا شوہر غلام نبی غلہ مندی میں محنت مزدوری کر کے کچھ رقم کمایا کرتا تھا جس سے گھر کا گز بسر ہوتا تھا.
دونوں میں بیوی محنت کر کے زندگی کی گاڑی چلا رہے تھے کہ جولائی ٢٠٢٢ میں نبیلہ کو ایک نا معلوم نمبرز سے ایک ویٹس ایپ میسج موصول ہوتا ہے. اور جب وہ میسج کو کھولتی ہے تو اس کی سر چکرا جاتا ہے. وہ میسج دراصل چند تصویروں میں مبنی تھا جس میں نبیلہ کا چہرہ لے کر اس کو نازیبا تصویروں پر کمپیوٹر سوفٹ ویر کے ذریعے ایڈٹ کر کے جوڑا گیا تھا.
نبیلہ پھلے تو گھبرا جاتی ہے مگر وہ یہ فیصلہ کرتی ہے وہ اس بات کو اپنے شوہر کے نوٹس میں لاے گی کیوں کہ تصویریں واضح طور پر جعلی تھی.
نبیلہ نے اسی شام اپنے شوہر کو سارا واقعہ تفصیل سے بتایا اور اس کو ایڈٹ شدہ تصویر دکھائی. مگر اس سب سے پھلے وہ اپنی ماں، جو کہ لاہور میں رہتی تھی ، کو یہ سب بتا چکی تھی. نبیلہ کی ماں نے اس کو بولا کہ فورن پولیس سے رابطہ کرے مگر نبیلہ نے ایسا کرنے سے منع کر دیا کیوں کہ اس کو دار تھا کہ اس سے بات پھیل جاے گی.
مگر نبیلہ کو شاید یہ علم نہ تھا کہ اس کی جعلی تصویروں کو بذریعہ ویٹس ایپ علاقے میں پہلے ہی وائرل کر دی گی
نبیلہ کے شوہر کے مطابق جب اس نے وہ تصویریں دیکھی تو اسے معلوم ہو گیا کے یہ جعلی ہیں اور اس نے اپنی بیوی کو حوصلہ دیا اور اس پر اعتماد کا اظہار کیا.
اسی دوران اس کو دیگر ذرائع سے بھی یہ تصویر موصول ہوئی اور لوگوں نے اس سے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی. اسی دوران غلام نبی کو پتا چلا کہ ان تصویر کے ک]بنانے اور وائرل کرنے کے پیچھے علاقے کی ایک چالیس سالہ خاتون فاطمہ کا ہاتھ ہے جس کا گھر اس کے گھر سے چند فرلانگ دور ہے.
فاطمہ کی نبیلہ اور کے گھر والوں سے پرانا تنازع چلا آ رہا تھا اور نبیلہ کی شادی سے فاطمہ کا بھائی اس سے شادی بھی کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لئے اس نے نبیلہ کو مبینہ طور پر اغوا بھی کیا تھا، اور اس واقعے کی نہ صرف ایف آئی آر درج ہی تھی بلکہ ملزم کو سزا بھی سنائی گی تھی جس کے بعد دونو فریقین نے راضی نامہ کر کے ملزم کو جیل سے رہائی دلوائی تھی.
مگر راضی نام کے باوجود دونوں خاندانوں میں سرد جنگ جاری تھی اور نبیلہ کے مطابق اس کی تصویریں وائرل کر کے نبیلہ اپنا بدلہ لینا چاہتی تھی.
نبیلہ کے شوہر نے گاؤں کے ایک شخض کے ذریعے ان لوگوں سے رابطہ کیا جو یہ فیک تصویریں بنا رہے تھے اور ان کو یہ سب نہ کرنے کی التجا کی.
“میں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے کے یہ سب نہ کرو، میں غریب آدمی ہوں اور یہ سب غلط ہے. میں نے پانچ چھ دفعہ ان کی منت کی مگر وہ نہ مانے اور مجھے کہا کہ جا کے قانونی کروائی کر لو “
“
اس کے بعد نبیلہ نے اپنی والدہ شہناز کے کہنے پر ایف آئی اے سے رجوع کیا اور انھیں تمام ثبوتوں سمیت اپنے نامزد مرکزی ملزم فاطمہ کے خلاف کاروائی کی درخواست کی. ایف آئی اے نے درخواست موصول کرنے کے بعد بھی کوئی کاروائی نہ کی. جب شہناز نے ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران سے بتا کی تو کیس کی تفیتشی افسر نے مرکزی ملزمہ فاطمہ کو تفتیش کے لئے لاہور طلب کر لیا.
اس نوٹس کی بنا پر نبیلہ کو امید اور حوصلہ ہوا کے شاید یہ اس کو انصاف ملنے کی جانب پہلا قدم ثابت ہوگا مگر اس نہ ہو سکا.
شہناز کے مطابق فاطمہ جب ایف آئی اے کی تفتیش کے بعد گاؤں آئی تو اس نے سب کو بتایا کہ وہ وہاں رشوت دے کر اپنا کیس ختم کروا کے آئی ہے،
” فاطمہ نے ایف آئی آے کی تفتیش سے واپس آ کر سارے گاؤں کو بتایا کہ میں نے تین لاکھ روپے تفتیشی افسر کو دے دے ہیں اور اس نے میرے سامنے موبائل فون میں سے ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا ہے اب نبیلہ جو کچھ کر سکتی ہے جا کے کر لے. اس وجہ سے میری بیٹی نے ہمت چھوڑ دی کہ میں غریب ہوں اور میری کوئی نہیں سن رہا. لیکن میں نے ہمت نہیں چھوڑی، میں ایف آئی میں جاتی رہی اور وہ مجھے جھوٹی تسلیاں دیتے رہے ایک دو دن میں تمہاری ایف آئی آر ہو جاے گی. میں نے جب سارا معاملہ ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر وقاص کو بتایا تو انہوں نے مجھے کہا کہ چھبیس ستمبر کو ایف آئی آر درج ہو جاے گی اور جب میں چھبیس کو گی تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو اس کیس کا معلوم ہی نہیں ہے”
تاہم ایف آئی اے کی جانب سے ڈھائی مہینے تک ٹال مٹول سے کام لینے کے باوجود ایف آئی آر درج نہ ہوئی
اس دوران نبیلہ کے نامزد ملزمان نے علاقے میں اس کے کردار کے خلاف غلط باتیں بھی پھیلا دی اور مبینہ طور پر ایک دو لوگوں نے اس پر طعنے زنی بھی کی.
ان تمام حالات میں نبیلہ نے یکم اکتوبر کو گھر سے باہر بھرے بازار میں زہر کھا کر اپنی زندگی ختم کر لی
“وہ گھر سے بیج لینے گی تھی. دس بجے مجھے میری بیٹی کے موبائل نمبر سے ایک کال آئی اور بات کرنے والے شخض نے بتایا کہ میری بیٹی کی طبیعت بہت خراب ہے اور وہ الٹیاں کر رہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ظہار کھایا ہوا ہے. میں نے فورا اپنے داماد کو کال کی اور اسے موقع پر پہنچنے کو کہا. میرے داماد نے پہنچ کر ریسکیو کو کال کی مگر ان کی گاڑی نہیں آئی جس کے بعد اس نے اس کو لوڈر رکشا میں ڈال کر نزدیکی ہسپتال لے گیا جنہوں نے اس کا معدہ صاف کرنے کے بعد اس کو لاہور لے جانے کا بولا، ابھی میری بیٹی ایمبولینس میں ہی تھی جب اس کی موت واقع ہوگی”
نبیلہ کی موت کے بعد پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 کے تحت مقدمہ درج کر لیا اور تین کم عمر ملزمان کو حراست میں لے لیا. تاہم مرکزی ملزمہ نبیلہ نے عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی. پولیس کے تفیتیشی افسر کے مطابق تمام نامزد ملزمان واقعے میں ملوث نظر آتے ہیں کیوں کہ انہوں نے نبیلہ کی فیک تصویریں وائرل کی تھی.
نبیلہ کی خود کشی کی خبر نشر ہونے کے بعد ایف آئی اے نے کیس کی دو خواتین تفتیشی افسران کو معطل کر دیا اور نبیلہ کی ماں کیس کی پیروی کرنے کے لئے بولا اور یقین دلایا کے کیس میں انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں گے.
“ایف آئی سے لوگ میرے پاس آے اور مجھے کہا کہ پھلے آپ کی بیٹی تھی اب آپ مدعی بن جائیں. میں نے انھیں کہا اب میں نے کیا کرنا ہے میری بیٹی تو چلی گی اگر آپ لوگوں نے وقت سے کام کیا ہوتا اگر کیا ہوتا تو میری بیٹی شاید زندہ ہوتی صرف اس لئے ہمارا کام نہیں ہوا کیوں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے”
ایف آئی اے نے بار ہا یقین دہانیوں اور تصاویر کے وائرل کے جانے واضح شواہد موجود ہونے کے باوجود اس سٹوری کے فائل ہونے تک کیس کی ایف آئی آر درج نہیں کی. ایف آئی اے حکام کے مطابق مقدمے کی تفتیش مکمل ہو گی ہے مگر مقدمہ کے اندراج کے لئے ان کو اعلی حکام اور لیگل برانچ کی منظوری کا انتظار ہے
واضح رہے کہ اس حوالے سے نبیلہ نے اپنی پہلی تحریری شکایت اٹھارہ جولائی کو دائر کی تھی.
اس حوالے سے جب ایف آئی اے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں دو تفتیشی افسران کے معطل ہونے کی وجہ سے تفتیش آہستہ ہو رہی ہے. ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے پاس کیسز کا بوجھ بہت زیادہ ہے اور دو ڈویژن لاہور اور ساہیوال کے لئے صرف ایک تھانہ موجود ہے.
عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل سے تعلق رکھنے والی فوجداری قوانین کے ماہر وکیل شبیر حسین کے مطابق پولیس کو اس کیس کی تفتیش قتل بس سبب کی بجاۓ قتل شبہ عمد کے تناظر میں کرنی چاہئے
نبیلہ کی پر اسرار حالات میں موت کی سب سے براہ راست وجہ اس کی وائرل ہونے والی تصویریں اور ویڈیوز اور اس کی درخواست پر کسی قسم کی کوئی کاروائی نہ ہونا تھی. نبیلہ کے کیس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کرگادگی پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں اور نبیلہ کی ماں کا یہ سوال جواب طلب ہیں کہ اگر قانون موجود ہے تو ان کی بیٹی انصاف حاصل کیوں نہ کر سکی