22 نومبر 2022
تحریر
شوکت کورائی
کراچی
سندھ ہائی کورٹ نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سابق سربراہ پروین رحمان کے قتل کیس میں گرفتار پانچ مجرمان کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے، ان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے تمام ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا، عدالتی حکم نامے میں تفتیشی حکام سمیت کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا گیا ہے.
پروین رحمان کو 13 مارچ 2013 کو کراچی کے علاقے قصبہ کالونی موڑ پر پیرآباد تھانے کی حدود میں اس وقت دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار افراد نے قتل کردیا تھا جب وہ اپنے دفتر سے گھر جارہی تھیں۔ پروین رحمان تقریبا بیس سال سے زائد اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہی تھیں۔
پروین رحمان قتل کیس میں 5 ملزمان نامزد تھے _انسداد دہشتگردی عدالت نے 8 برس بعد دسمبر 2021 میں چار ملزمان رحیم سواتی، امجد حسین، ایاز سواتی اور احمد خان کو دسمبر 2021 میں عمر قید اور دو دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ ایک اور ملزم اور رحیم سواتی کے بیٹے عمران سواتی کو سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔
پروین رحمان کی بہن اور اس کیس کی مدعی عقیلہ اسمائیل کا کہنا ہے کہ فیصلے سے۔ صدمہ پہنچا ہے لیکن پھر انصاف کے لئے سپریم کورٹ جائیں گےان کا کہنا تھا کہ فیصلہ ناانصافی پر مبنی ہے اور مقتولہ کے خاندان کو ملزمان سے خطرات لاحق ہیں
“ہم نے نو سال کی جد وجہد کے بعد انصاف حاصل کیا تھا مگر اسے یک جنبش قلم ختم کر دیا گیا. میں اب پروجیکٹ کو چلانے کی کوشش کر رہی ہوں اور میں جانتی ہوں کہ وہاں پر اب بھی کتنا خطرہ ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مجرموں کو چھوڑ دیں تاکے وہ ہم پر پھر حملہ کریں اور مجھے مار ڈالیں”
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے صرف ملزم رحیم سواتی کے اعترافی بیان پر انحصار کیا لیکن ملزم کے اعترافی بیان اور شواہد میں بڑا تضاد ہے جس کے باعث ملزمان کو شک کا فائدہ دیا گیا ہے_ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پولیس نے قتل کے مقام سے گولیوں کے خول جمع کئے تھے وہ اسلحہ ملزمان سے برآمد نھیں ہوا بلکہ ایک دوسرے ملزم قاری بلال کے اسلحے سے مماثلت رکھتا تھا_
کچھ عرصے بعد پولیس مقابلے میں قاری بلال منگھو پیر مارا گیا جس سے برآمد شدہ ہتھیار کے گولیوں کے خول کی فارنزک ہوئی جس سے پتا چلا کہ یہ وہی اسلحہ ہے جو پروین رحمان کو قتل کرنے میں استعمال کیا گیا_
انسانی حقوق کمیشن براۓ پاکستان نے بھی ملزمان کے خلاف مضبوط شواہد موجود ہونے کے باوجود بریت کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظھار کیا ہے_ کمیشن نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملزمان کو متعلقہ قوانین کے تحت حراست میں لیا جائے اور پروین رحمان کے اہل خانہ، ساتھیوں اور قانونی ٹیم کو مناسب تحفظ فراہم کیا جائے_
پروین رحمان قتل کیس کی تحقیقات کرنے کے لے سپریم کورٹ کے حکم پر دو بار مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی لیکن عدالت کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹس کی حیثیت کیس کے چالان سے زیادہ نہیں ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں جو چیزیں بتائی گئیں وہ پہلے ہی منظر عام پر آچکی تھیں۔ جبکہ محض جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر عدالت کسی ملزم کی سزا یا بے گناہی کا فیصلہ نہیں کرسکتی۔عدالت کا کہنا ہے کہ شک کا فائندہ ملزم کو دیا جاتا ہے لیکن کیس میں ایک نہیں، کئی شکوک وشبہات پائے گئے ہیں۔
عقیلہ اسمائیل کا کہنا تھا کہ ملزمان پراجیکٹ کے سامنے رہتے تھے اور پروین رحمان کو دھمکیاں دیتے رہتے تھے_ پروین رحمان مافیا سے لڑ رہی تھیں_ وہ چپ رہنے کے لئے کبھی تیار نھیں ہوئی اور موت کو قبول کیا_