16 دسمبر ، ٢٠٢٢

تحریر:  ریحان پراچہ


لاہور

اہم اتحادی جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمیعت علماء اسلام کے اعتراضا ت کے بعدوفاقی حکومت نے سینیٹ سے جمعے کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے قانون میں ترامیم کا ایک بل منظور کروایا ہے جس میں میں اس قانون کا دائرہ کار بلوچستان کے ریکوڈک منصوبے تک محدود کیا گیا ہے.

صدر عارف علوی نے فارن انویسٹمنٹ پروموشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ کی ١٣ دسمبر کو منظوری دی تھی جسکے تحت ریکوڈک منصوبہ وفاقی حکومت کے حوالے ہو گیا ہے اس قانون نے حکومت اور کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی راہ ہموار کر دی

اس قانون سازی کا مقصد سرمایہ کاروں کو غیر ضروری عدالتی کارروائیوں اور دیگر پریشانیوں سے بچانا ہے مگر اس قانون نے حکمران اتحاد کے اندر اختلافات پیدا کر دیے جس میں اہم اتحادیوں BNP اور JUI-F سمیت کئی جماعتوں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ یہ بلوچستان کے لوگوں کے حقوق کے خلاف ہے۔

اتحادیوں کو راضی کرنے کے لیے، حکمران اتحاد کی قیادت کرنے والی مسلم لیگ (ن) کے وزراء نے پہلے منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اور بعد میں اسی دن کابینہ کے اجلاس کے بعد یقین دہانی کرائی کہ ان کی شکایات کے ازالے کے لیے قانون میں ترمیم کی جائے گی۔

اس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قانون میں ترامیم کا بل جمعے کو سینیٹ میں پیش کیا۔ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس قانون میں جسکا اطلاق پورے پاکستان تک ہے میں ترمیم کی جائے گی تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ “بلوچستان کے لیے، اس کا اطلاق صرف ریکوڈک پروجیکٹ کی اہل سرمایہ کاری پر ہونا چاہیے۔ جیسا کہ اس ایکٹ کے ملحقہ شیڈول میں ذکر کیا گیا ہے”۔

ترمیمی بل اپوزیشن ارکان کے ہنگامے کے درمیان منظور کیا گیا۔ اپوزیشن کے سینیٹرز نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے پوڈیم کا بھی گھیراؤ کیا جب کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے ایوان کو گھیرے میں لے لیا۔

بل کی منظوری کے بعد اسحاق ڈار نے پاکستان اور بلوچستان کو مبارکباد دی اور کہا کہ یہ بل ضلع چاغی کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بعد ازاں اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

اس سے قبل وفاقی حکومت کی جانب سے ریکوڈک سے متعلق قانون سازی پر اعتماد میں نہ لینے پر بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس قانون کو صوبائی خودمختاری سے متعلق اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کا آغازقرار دیا ہے_

اس حوالے سےایک ٹاک شو میں رد عمل دیتے ہوۓ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ریکوڈک سے متعلق قانون سازی کو اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کا آغاز قرار دیا۔

اختر مینگل نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئ جے یو آئی اور بی این پی نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے واک آئوٹ بھی کیا .ٹاک شو میں بات کرتے ہوۓ انہوں نے وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے کا عندیہ بھی دیا

حکومت کی دوسری اتحادی جماعت جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا ریکوڈک منصوبے کے حق میں زور زبردستی اور دھوکے سے پارلیمان سے بل پاس کرایا گیا۔ ان کے مطابق بل اجلاس کے ایجنڈے پر ہی نہیں تھا لیکن اچانک بل لا کر منظور کرا لیا گیا_

اختر مینگل نے کہا کے وزیر وزیر اعظم کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی سے مذاکرات میں ابھی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور افسوس کا اظھار کیا کہ سندھ اسمبلی نے بھی ریکوڈک بل کے حوالے سے قرار داد منظور کی جو اٹھارویں ترمیم کے منافی ہے _

دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے صوبائی اسمبلی کی جانب سے 10 دسمبر کو ریکوڈک معاہدے سے حوالے سے منظور کی گئی دو آئینی قراردادوں کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔ ان قراردادوں کے تحت منصوبے کی صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹی کو وفاق کے حوالے کرنے کے کی منظوری دی گئی تھی۔اپوزیشن ارکان نے اعوان میں احتجاج کرتے ہوئے قرار دادوں کی کاپیاں پا ڑھی اور نعرے بازی کی _

ماہر معاشی امور ڈاکٹر قیصر بنگالی اس ضمن میں کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا یہ اختیار نہیں کہ وہ دیکھے کہ کوئی معاہدہ درست ہے یا نہیں ، ایک نجی کمنی کا حق حاصل نہیں کہ وہ پاکستان کی ریاست کو حکم دے ، آئین اجازت نہیں دیتا کہ صوبے اپنے وسائل وفاق کو دیں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق آئل اور گیس کے علاوہ تمام معدنیات پر صوبوں کا حق ہے اور اب قانونی شکل دے دی گئی ہے کہ بلوچستان ایک کالونی ہے اور اس کے وسائل پر وفاق کا حق ہے۔

واضح رہےکہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے ٢٠١٣ میں ریکو ڈک منصوبے کو غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی نے پاکستان کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کر لیا تھا تاہم بعد میں ریاست پاکستان اور کمپنی نے آوٹ اف کورٹ سیٹلمنٹ کر لی تھی.

ریکو ڈک منصوبے پر نئے معا ہدے کے حوالے سے صدر مملکت نے ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجا تھا جس نے اپنی رائے دیتے ہوئے نئے معا ہدے کو درست اور قانونی قرار دیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here