21 دسمبر 2022


 

پچھلے کچھ دنوں سے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کی مبینہ آڈیو ٹیپس سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں. پہلے جو آڈیوز وائرل ہوئی ان میں عمران خان مبینہ طور اپنے پارٹی رہنماؤں اور پرنسپل سیکرٹری کے ساتھ مبینہ امریکی سایفر پر گفتگو کر رہے تھے.

کچھ آڈیوز میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کے رہنما زلفی بخاری اور اپنے اسٹاف کے ساتھ توشہ خانہ کے تحفوں کے مطلق گفتگو کر رہی تھی.

لیکن دو دن قبل وائرل ہونے والی ویڈیو میں عمران خان مبینہ طور پر انتہائی نجی طور کی گفتگو کر تے سنائی دے رہے ہیں تاہم عمران خان یا پی ٹی آئی نے اب تک وائرل ہونے والی آڈیوز میں عمران خان کے آواز ہونے کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی قانونی کاروائی کی ہے.

آئینی ماہرین اور انسانی حقوق کے ایکٹوسٹس نے اس طرح کی نجی گفتگو کو لیک کرنے کو غیر قانونی اور انسانی شرف کے خلاف قرار دیا ہے

تاہم قانونی ماہرین کی رائے میں اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کاروائی سے پہلے متاثرہ شخض کو آڈیو کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور جے یو آئی کے سینٹر کامران مرتضیٰ کے مطابق آئین میں رازداری کے حوالے سے تو شق موجود نہیں مگر

اس کو انسانی تقدس کا حصہ سمجھا جاتا ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل چودہ میں درج ہے

کامران مرتضیٰ کے مطابق اگر عمران خان نے ان آڈیوز کو تسلیم کر لیا تو پھر ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اس لئے ان کا مشورہ یہ ہی ہوگا کہ وہ اس معاملے کو چھوڑ دیں

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یٰسین آزاد کا کہنا ہے کہ عمران خان کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کو ایف آئی اے میں لے کر جائیں تاکہ معاملہ حل ہو سکے

ڈیجیٹل حقوق کے حوالے کام کرنے والے اسامہ خلجی کے مطابق پاکستان میں ایجنسیز فون ٹپنگ کا کام کرتی ہیں لیکن یہ پیکا قانون کے مطابق ایک غیر قانونی حرکت ہے. اسامہ خلجی کے مطابق خفیہ طور پر ریکارڈ کئے گے مواد کو سیاست دانوں کو بلیک میل کرنے کے لئے استمعال کیا جاتا ہے اور جب کوئی سیاست دان آیا جج اسٹبلشمنٹ کی پالیسی کے خلاف چلتا ہے تو پھر ایسے مواد کو ریلیز کر دیا جاتا ہے.

انسانی حقوق کمیشن براۓ پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق کے مطابق ایسی آڈیو لیکز کا آنا سماج کے لئے کوئی اچھا فعل نہیں ہے اور اس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہئے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here