22 نومبر 2022

احمد سعید کی تحریر


جنرل قمر جاوید باجوہ کا چھ سالہ دور بطور آرمی چیف انتیس نومبر کو اختتام پذیر ہو گیا. جنرل باجوہ کا دور بہت سے حوالوں سے تناز عات کا شکار رہا اور تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے ان کے دور میں فوج کے بڑھتے ہوئے سیاسی کردار پر شدید تنقید کی

جنرل باجوہ نے بھی اپنے ایک الوادعی خطاب میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ انڈیا کی فوج بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی ہے مگر پاکستانی فوج پر تنقید اس لئے زیادہ ہوتی ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت کرتی ہے .

مگر جنرل باجوہ کے دور میں سیاسی مداخلت کے علاوہ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا اور آزادی اظہار رائے کے لئے برداشت انتہائی کم سطح پر پہنچ گی اور اس حوالے سے فوج کا کردار انتہائی واضح تھا.

‘جنرل باجوہ نے اپنے دور میں رائے عامہ کو ڈی ایچ اے کی زمین کی طرح ہموار کیا’

جنرل باجوہ کے آنے کے ایک مہینے بعد ہی جنوری 2017 سے ملک بھر سے چھ بلاگرز کو اغوا کیا گیا اور ان پر توہین مذھب کے جھوٹے الزامات لگاے گے. بعد میں عالمی دباؤ پر بلاگرز کو رہا کر تو دیا گیا مگر ان سب کو اپنی جان بچانے کے لئے جلا وطنی اختیار کرنا پڑی. رہا ہونے والے بلاگرز نے اپنے اغوا میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو قصور وار قرار دیا تھا جس کے سربراہ جنرل باجوہ تھے.

اگر آزادی اظہار رائے کی بات کی جاے تو جنرل باجوہ کے دور میں ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہے. جب کہ مطییع الله جان اور اسد علی طور سمیت فوج کے ناقد کئی صحافیوں پر حملے ہوئے اور ان کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا.
فوج پر تنقید کو فوجداری جرم بنانے کی کئی دفعہ کوششیں کی گی.

سینئر صحافی مطیع الله جان کے مطابق جنرل باجوہ کے دور میں ان کے اقدامات اور ڈاکٹرائن کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے میڈیا کا گلہ دبایا گیا. “اس مقصد کے لئے آئی ایس پی آر نے نیوز چینلز پر دباؤ ڈال کر ان صحافیوں کو نوکریوں سے نکلوا دیا گیا جو کہ جنرل باجوہ کے اقدامات پر تنقید کرتے تھے.

مطیع الله کے مطابق جنرل باجوہ کا دور سب سے تاریک دور کے طور پر یاد رکھا جاے گا.

اس دور میں حامد میر سمیت دیگر سینئر صحافیوں کے خلاف بغاوت اور پیکا کے قانون کے تحت مقدمات بھی درج کے گے.

جنرل باجوہ پر تنقید کرنے سابق فوجی افسران بھی زیر عتاب رہے

جنرل باجوہ کے دور میں آزادی اظہار رائے پر پابندیاں اس حد تک بڑھ گی کہ ایک ریٹائر میجر جنرل کے بیٹے کو اس لئے گرفتار کر لیا کیوں کہ انھوں نے خط لکھ کر جنرل باجوہ کے توسیع لینے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا.

اس کے علاوہ سابق آئی ایس آئی چیف لفٹینٹ جنرل اسد درانی کو بھارتی را کے سابق افسر کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے پر ان کی پنشن بند کر دی گی. جنرل باجوہ پر تنقید کرنے کے الزام میں بہت سارے ریٹائر فوجی افسران سے پنشن اور مراعات واپس لے لی گی تھی.

‘شاید نئی قیادت کے آنے کے بعد علی وزیر رہا ہو جائیں’

جنرل باجوہ کے دور میں سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں بالخصوص پشتون قوم پرست رہنما زیر عتاب رہے. علی وزیر کو جنرل باجوہ پر تنقید کرنے پر دسمبر ٢٠٢٠ میں گرفتار کیا گیا اور ان پر کئی مقدمات بنا دے گے.

مئی ٢٠١٩ میں شمالی وزیرستان کے علاقے خر کمر میں میں سیکورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس میں تیرہ لوگ ہلاک ہو گے جن کا تعلق پی ٹی ایم سے تھا لیکن اس واقعے کے الزام میں بھی علی وزیر، محسن داوڑ اور منظور پشتیں کو گرفتار کر لیا گیا

علی وزیر کے علاوہ گلالی اسماعیل بھی جنرل باجوہ پر تنقید کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہیں اور اس وجہ سے ان کو خود ساختہ جلا وطنی بھی اختیار کرنی پڑی. گلالی اسماعیل کے ملک سے جانے کے بعد ان کے والدین کو ہراساں کرنے کے لئے مقدمات درج کے گے.

محسن دواڑ کا کہنا ہے کہ ان کو نئی عسکری قیادت سے زیادہ توقعات تو نہیں مگر انھیں امید ہے کہ وہ پچھلی رجیم کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے

اس کے علاوہ جنرل باجوہ کے دور میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت بہت سے سیاسی قائدین پر بغاوت کے مقدمات محض اس لئے درج ہوئے کیوں کہ انہوں نے فوج اور جنرل باجوہ کے سیاسی کردار پر تنقید کی تھی.

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑایچ کے مطابق ان اقدامات سے فوج کا تاثر متاثر ہوا اور نئی فوجی قیادت یہ سلسلہ بند کر دے گی

جنرل باجوہ کے دور میں مسنگ پرسنز کا ایشو شدت اختیار کر گیا اور جبری گمشدگی کے واقعات ملک بھر میں رپورٹ ہوئے. پنجاب اور اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بلوچ اورپشتوں طلبہ کو ہراساں کیا گیا اور بعض کوئی کئی کئی ماہ تک اغوا کر کے جبری لاپتا رکھا گیا.

جنرل باجوہ کے دور عدلیہ میں واضح مداخلت ہوتی رہی

جنرل باجوہ کے دور میں عدلیہ میں بھی فوجی اسٹبلشمنٹ کی مداخلت واضح اور زیادہ ہوگی. مداخلت اتنی زیادہ ہوگی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سامنے آ کر اس پر سے پردہ اٹھانا پڑا جس کی پاداش میں ان کو سپریم جوڈیشل کونسل نے عہدے سے فارغ کر دیا.

اس کے علاوہ نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے بھی اسٹبلشمنٹ کی مداخلت اور دباؤ کا ذکر کیا تھا. جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا گیا اور بادی النظر میں اس کی سب سے اہم وجہ ان کی فیض آباد دھرنے کا فیصلہ تھا.

سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی کے مطابق جنرل باجوہ کے دور میں اسٹبلشمنٹ نے ان کے انتخاب میں بھی مداخلت کی تھی.

بلوچستان کے حوالے سے بھی جنرل باجوہ کے کردار پر تنقید ہوتی رہی. دو دفعہ منتخب وزراے اعلی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تبدیل کیا گیا جس کے تانے بانے اسٹبلشمنٹ سے جوڑے گے گے. صوبہ میں شورش اور علحیدگی پسند جذبات میں اضافہ ہوا

فوجی آپریشنز کے باوجود عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا اور دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آئی جب کہ ان آپریشنز میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جبری گمشدگیوں اور مارواے عدالت ہلاکتوں میں شدت آئی.

جنرل باجوہ نے اپنے دور میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا. تاہم ان مزاکرات کے دوران سابق فاٹا اور سوات میں شدت پسندی بڑھی اور طالبان نے دوبارہ سے کی علاقوں میں تسلط قائم کر لیا اور ان کی ریٹائر منٹ سے ایک دن قبل تحریک طالبان پاکستان نے جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرتے ہوئے پاکستان میں اپنے حملوں کے دوبارہ آغاز کا اعلان کر دیا.

جنرل باجوہ کے سبکدوش ہونے کے بعد ان کے کے گے اقدامات پر عوامی سطح پر سخت تنقید کا سلسلہ جاری ہے مگر اب تمام نظریں جنرل عاصم منیر پر ہیں کہ وہ کس طرح اپنے پیشرو کے اقدامات کے برعکس انسانی حقوق کی صورت حال بہتر بناتے ہیں.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here