تحریر: شہزاد نوید

گل مینا ( فرضی نام) کا تعلق سوات کی تحصیل  مٹہ سے ہے اور ان کی عمر تقریباً بائیس سال کے قریب ہے لیکن وہ کسی غیر مرد سے بات کرنا تو دور کی بات اس کو دیکھنے سے بھی گھبرا جاتی ہیں. اور اس خوف کی وجہ چند ماہ قبل ان کی  چھوٹی بہن فرزانہ ( فرضی نام) کا غیرت کے نام پر قتل تھا.

فرزانہ فرسٹ آئیر کی طالبہ تھی اور پسند سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اپنے والدین اور بھائیوں کو اس اس بات پہ آمادہ کرنے میں ناکام رہی۔ بھائیوں کو ڈر تھا کہ کہیں وہ کورٹ میرج نہ کرلے لہذا انہوں نے اس کو  “غیرت” کے نام پر  قتل کر  دیا۔
فرزانہ کو اس کے بھائیوں اور والد نے چائے میں زہر دے کر قتل کر دیا اور یہ علاقے میں یہ  مشہور کیا گیا کہ وہ بہت عرصہ سےکینسر کے مرض میں مبتلا تھی اس وجہ سے انکا انتقال ہوا.  اور ایسا کرنے کی وجہ بھائیوں اور والد کا خود کو کسی بھی قانونی کاروائی سے محفوظ رکھنا تھا.
سوات میں پچھلے چند سالوں میں ‘غیرت’ کے نام پر قتل کے کئی واقعات پیش آے ہیں جس میں کئی افراد اپنی جانوں سے گئے تاہم ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی.
ایک غیر سرکاری تنظیم افراد “دی اویکننگ”  کے مطابق گزشتہ سات سالوں میں سوات میں  ‘غیرت’ کے نام پر 229 افراد کا قتل کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں211  خواتین جبکہ  مردوں کی  تعداد 18 ہیں.
 دی اویکننگ کے مطابق سال دو ہزار بارہ سے سوات میں گھریلو جھگڑے، غیرت کے نام پر قتل، جنسی تشدد اورخودکشیوں کے واقعات پر کام کرتے ہیں۔ ان واقعات کے  اعداد و شمار “دی اویکننگ”  کے اپنے  ممبرز، پولیس، اخبارات، صحافیوں اور وکلاء سے اکھٹا کرتی ہے ۔
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ تحصیل کے علاقے بابوزئی سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ نوجوان نے نام نہ ظاہر کرنے کے شرط پر بتایا کہ سال 2019 میں نے اپنی پسند سے لڑکی کے ساتھ کورٹ میرج کرلی اور ابوہ   دونوں خوشی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔
“شادی کو تین سال گزر گئے لیکن اب تک ہم سوات سے باہر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دوست کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ لڑکی والے اب تک اس تلاش میں ہیں کہ کب ہم ملیں اورہم دونوں کو قتل کر دیا جائے۔ ہمیں افسوس ہے کہ سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن میں پسند کی شادی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام ہمیں پسند کی شادی کے اجازت دیتا ہے.  میں سوچتا ہوں کہ ہم کب اس سچائی کو سمجھیں گے۔”
غیرت’ کے نام پر قتل کیوں ؟
‘غیرت’ کے نام پر قتل کسی خاندان کے کسی فرد یا افراد کا قتل ہوتا ہے، جو عموماً اسی خاندان کے کسی فرد یا افراد کے ہاتھوں انجام پاتا ہے ایسا قتل کرنے والے فرد یا افراد کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ مقتول کی کوئی حرکت، خاندان کی بے عزتی یا شرمندگی کا باعث بنی، یا اس نے خاندانی روایات سے بغاوت کی ہے۔ اس قتل کی عام طور پر وجوہات، پسند کی شادی، طلاق، علیحدگی، جبری شادی سے انکار، خاندان سے باہر شادی کی خواہش، ناجائز جنسی تعلقات یا جنسی حملے کا نشانہ بننا وغیرہ شامل ہیں۔
“غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی تاریخ کوئی چند سو سالہ نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے۔ قدیم رومن زمانے سے ہی غیرت کے نام پر عورت کو مار دینے کی تاریخ ملتی ہے”
واقعات رپورٹ کیوں نہیں ہوتے ؟
دی اویکننگ کے  ایگزیکٹو ڈاریکٹر عرفان حسین بابک نے بتاتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل شدہ مرد و خواتین کو زیادہ تر ذہر دیکر مارا جاتا ہے ، بعد میں ایسے واقعات کو خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے۔ یہ واقعات زیادہ تر سوات کی تحصیلوں چارباغ، مٹہ، خوازہ خیلہ اور تحصیل کبل کے دورداز علاقوں میں رونما ہوتے ہیں۔
انسانی حقوق کے کام کرنے والے ادارے “دی اویکننگ” کے مطابق 2016 میں 53، 2017 میں 50، 2018 میں 32، 2019 میں 32، 2020 میں 29، 2021 میں 18 اور 2022 میں 15 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے  جس میں 211 خواتین اور 18 مرد شامل ہیں۔
دی اویکننگ ہر سال مختلف علاقوں سے تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ کرتے ہیں اور یہ متاثرہ خاندان کے ساتھ مالی تعاون کے ساتھ ساتھ قانونی مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔ زیادہ تر افراد ان کے پاس اپنے مسائل لیکر اتے ہیں۔
عرفان حیسن بابک نے مزید بتایا کہ دی اویکننگ نے اسپیشل فیملی کورٹس بنائے ہیں جس میں ہم ‘غیرت’ کے نام پر قتل کے واقعات، خواتین کے ساتھ بدسلوکی، گھریلوں تشدد، وراثت میں حصہ نہ دینا، طلاق، ذہنی ہم آہنگی، کم عمری میں شادی اور دیگر گھریلوں ناچاقی جیسے مسائل حل کرتے ہیں۔ اس کی روک تھام کے لئے علاقے کے عمائدین انسانی حقوق کے تنظمیں اور سب سے بڑھ کر سماجی کارکن اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ مل کر ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
قانون سازی میں عام لوگوں کی رائے انتہائی اہم ہوتی ہے کیونکہ قانون سازی عام لوگوں کے لئے ہی ہوتی ہے جب تک حکومت کو عوام کے حقیقی مسائل سے آگاہ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک قابل عمل قوانین بنانا ممکن نہیں۔
عرفان حسین بابک کے مطابق اب تک ان کے پاس سات سالوں میں 228 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور اب تک 80 فیصد مجرموں کو قانونی طورپر سزائیں بھی سنائی گئی ہیں لیکن کبھی کھبار ایسا بھی ہوتا ہے کہ عدالت کے جانب سے ملزمان کو سزا سنانے کے بعد متاثرہ افراد راضی نامہ کرلیتے ہیں۔
بقول عرفان حسین بابک: تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور واقعات پر کام کرنا اسان نہیں، ہم سال 2012 سے سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں کام کر رہے ہیں ہمیں بھی شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ واقعات ہمیشہ دو خاندانوں کے درمیان اتے ہیں تو زیادہ تر افراد ہمارے ممبرز اور وکلاء کو دھمکا دیتے ہیں۔ سوات سمیت مختلف علاقوں میں ہمارے خلاف کمپین بھی لانچ کیا جاتا ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ پشتون کلچر کے وجہ سے یہاں کام کرنا مشکل ہے لیکن ہم انسانی حقوق اور عدم برداشت کے لئے جہدوجہد جاری رکھیں گے۔
کرونا وباء اور خواتین پر تشدد
دی اویکننگ کے سروے رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں کورونا وائرس کے دوران لوگ اپنے گھروں تک محدود تھے اس وجہ سے خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگیا تھا۔ سال 2020 میں خواتین پر 410 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
سال 2020 کے دوران کے سوات میں 14 ریپ کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 21 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کو سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔
خواتین کو غیرت کے نام پر کیوں قتل کیا جاتا ہے
خیبر پختونخواہ میں اپنی نوعیت کا پہلا “خویندو جرگہ” کے بانی اور خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تبسم عدنان نے بتایا کہ سب سے پہلے تو ہمارے معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی ہر انسان کو اپنی زندگی چینے کا پورا پورا حق حاصل ہےلہذا ہمیں اپنی سوچ اور روہےکو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
تبسم عدنان نے بتایا کہ ہم خواتین کے گھریلوں مسائل حل کرنے کے لئے جرگے منعقد کراتے ہیں جن میں ہم مختلف قسم کے مسائل حل کرتے ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ تر کیسز ایسے آتے ہیں جو حقیقت میں خودکشی یا بیماری نہیں ہوتی بلکہ ان لڑکیوں کو ‘غیرت’ کے نام پر قتل کیا گیا ہوتا ہے۔
قتل میں کون ملوث ہو سکتا ہے ؟
‘غیرت’ کے نام پر قتل اور قانون سازی کے حوالے سے ایڈوکیٹ سیف اللہ السلام نے بتایا کہ ‘غیرت’ کے نام پر قتل مرد و خواتین کے قتل میں ملوث بشتر ملزمان رشتہ دار ہوتی ہے۔ جس کے وجہ سے پہلے تو وہ رپورٹ درج نہیں کرواتے اور جب پولیس کے دباؤ میں رپورٹ درج کروا بھی دیتے ہیں تو اس میں شہادت نہیں ہوتی ۔ اس وجہ سے زیادہ ترملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں اور ‘غیرت’ کے نام پر قتل کرنے والے مزمان کا راضی نامہ بھی عدالت تسلیم نہیں کرتی۔ اس طرح قتل کے واقعات میں ملوث ملزمان کمزور  شہادت یا شہادت نہ ہونے کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں۔
ماہر قانون سیف الاسلام ایڈوکیٹ کے مطابق ناقص نفشیش کے باعث عدالت میں یہ ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آیا ایک عورت نے خودکشی کی ہے یا اسے قتل کیا گیا ہے۔
‘غیرت’ کے نام پر قتل اور اسلامی نقطئہ نظر
مہتم اور عالم مولانا سکندر احمد نے غیرت کے نام پر قتل ہونے واقعات کے بارے میں بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور روایتی تہزیب نہ ‘غیرت’ کے نام پر قتل کی وجہ ہیں اور نہ اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ دین اسلام کی تعلیمات سے لاعلمی اور ناآشنائی ہے۔ عورتوں پرتشدد کی اصل وجہ کو نہ جاننا بہت سے سنگین نتائج کو جنم دیتا ہے
انہوں نے کہا کہ دین اسلام کو ان جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانا مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر مشتعل کرنا ہے۔ بشتر مسلم ممالک میں اس پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر انسانی حقوق اور حقوق و نسواں کے جھنڈے تلے مغربی ثقافت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
مولانا سکندر کے مطابق “اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اور اس کے آشنا کو زنا کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر قتل کیا تو اس کو قتل ہی مانا جائے گا اور مجرم کو وہی سزا دی جائے گی جو ایک قاتل کو دی جاتی ہے”۔
غیرت’ یا بیماری ؟
ماہر نفسیات ڈاکٹر میاں نظام علی نے بتایا کہ بعض شوہروں اور بھائیوں کو ذہنی بیماری ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اہلیہ اور بہنوں پر شک کرتے ہیں۔ جب وقت گزرنے کے ساتھ بیماری میں اضافہ ہوجاتا ہے تو وہ بیوی یا بہن کے قتل تک جاسکتے ہیں جو انتہاہی قابل تشویش عمل ہے۔
میاں نظام علی نے بتایا کہ ڈیپریشن اور انزائٹی قابل علاج امراض ہیں۔ جن میں مردوں و خواتین کو اس بیماری کی علامات ہوں تو ان کو قریبی ماہر نفسیات سے علاج کرانا ضروری ہے۔
سوات پولیس کا سروے رپورٹ
ڈسٹرکٹ پولیس افس کے ار ٹی ائی کے تحت حاصل کردہ عداد و شمار کے مطابق سال 2016 میں 07، 2017 میں 06، 2018 میں 05، 2019 میں 09، 2020 میں 07، 2021 میں 08 اور 2022 میں 06 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں 5 مرد اور 37 خواتین شامل ہیں۔
عداد و شمار کے مطابق اب تک عدالت میں 20 کیسز چل رہے ہیں جبکہ 69 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
 پولیس قتل کو حادثاتی موت رپورٹ کرتے ہیں ؟
اس سلسلے میں کئی مرتبہ ڈسٹرکٹ پولیس افیسر شفیع اللہ گنڈاپور سے فون اور مسیجز کے ذریعے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کے کوشش کی لیکن انہوں نے موقف دینے سے انکار کردیا۔
ایس پی سوات ارشد خان نے بتایا ہے کہ پولیس اس طرح کے واقعات پر سنجدگی سے کام کر رہی ہے۔ غیرت کے نام پہ قتل میں ملوث ملزمان کو بر وقت گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کو سزا بھی دی گئی ہے اور کچھ کیسز اب بھی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ پولیس زیادہ تر واقعات کو حادثاتی موت قرار دے رہی ہے، یہ بلکل بے بنیاد اور من گھرٹ ہے۔ اگر کوئی بھی پولیس اہلکار اس طرح کے واقعات میں ملوث ہے تو ہم ان کو قانونی طور پر برطرف کریں گے اور ان کے لئے عدالتوں میں باقائدہ نظام بھی موجود ہے۔
 کسی بھی اہلکار پر یہ الزام ہے تو متاثرہ افراد عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں ہم بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
بقول ایس پی ارشد خان: ہم نے اب تک تمام تر کیسز میں ملوث ملزمان کے خلاف کاروائیاں جاری ہے اور 20 کیسز عدالت میں چل رہے ہیں ان کو جلد از جلد عدالت کے طرف سزائیں دے جائیں گے۔
خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات میں غیرت کے نام پر مرد و خواتین کی قتل کے روک تھام کے حوالے سے سیاسی و سماجی شخصیات، مذہبی سکالر، ڈاکٹرز، نفسیاتی ماہرین اور سیکورٹی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ اس طرح کےواقعات کی روک تھام کے لئے سب کو ایک بیج پر ہونا چاہیے اور اس طرح کے واقعات میں ملوث ملزمان کو سخت سے سخت سزا دینے چاہیے۔ اکثر کیسز میں بغیر تفشیش اور ثبوت ذاتی اختلافات کی بنیاد پر بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو انتہاہی افسوسناک اور ناقابل معافی فعل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here