جنوری  20 ،  2023

تحریر: احمد سعید


لاہور

اخباری اطلاعات کے مطابق نامزد اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور اعوان  نے  وزیر ا عظم کو خط لکھ کر  عہدہ سنبھالنے سے معذرت کر لی ہے۔  ذرائع کے مطابق منصور اعوان اپنی تعیناتی کے نوٹیفکیشن کے اجرا میں غیر معمولی تاخیر پر ناراض اور مایوس تھے۔

صدر پاکستان نے منصور اعوان کی بطوراٹارنی جنرل تعیناتی کی منظوری چوبیس دسمبر کو دی تھی تاہم پچیس دن گزرنے کے باوجود وزرات قانون نے ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کیا۔
 ذرائع کے مطابق اعلی عدلیہ  منصور اعوان کی تعیناتی سے خوش نہ تھی اور وہ حکومت کو واپس لینے کے لئے دباؤ ڈال رہی تھی۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل اور وزیر اعظم  کے معاون خصو صی عرفان قادر کے مطابق اٹارنی جنرل کی تعیناتی میں عدلیہ کی مداخلت غیر قانونی عمل ہے۔
ان کا موقف تھا کہ اٹارنی جنرل تو ایسے شخض کو ہونا چاہئے جو کہ مکمل طور پر آزاد خیال ہو. ” تعیناتی میں مداخلت غیر قانونی عمل ہوتا ہے جس کیں قانون سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ مرضی کی تعیناتی کے لئے حربے ہوتے ہیں”
ان کا کہنا تھا کہ وہ قانونی اصلاحات کے لئے وزیر اعظم  کے معاون خصو صی ہیں اور اگر حکومت کا نامزد آدمی اترنی جنرل نہیں ہوگا تو اس سے اصلاحات کا عمل متاثر ہوگا۔
اٹارنی جنرل کا اصل کام حکومت اور عدلیہ کے درمیان پل کا ہوتا ہے
تاہم سابق وزیر قانون خالد رانجھا کے مطابق اٹارنی جنرل کا کردار حکومت اور عدلیہ کے درمیان پل کا ہوتا ہے اس لئے  تعیناتی میں عدلیہ کی پسند کو محلوظ خاطر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
ان کے  مطابق اس تعیناتی کے حوالے سے کوئی   چیف جسٹس کے ساتھ رسمی یا غیر رسمی  مشاورت نہیں ہوتی بس اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی متناز ع شخض کو اٹارنی جنرل نہ بنایا جاے ۔
سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان کے مطابق بھی اٹارنی  جنرل کی تعیناتی میں عدلیہ کی رائے کو معلوم کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ کسی ایسے شخض کو اٹارنی جنرل نہ لگایا جاے جس کی عدلیہ سے نہ بنتی ہو۔
نامزد ہونے والے والے اٹارنی جنرل کون تھے؟    
منصور اعوان ایک ابھرتے ہو نوجوان وکیل ہیں جنہوں نے پچھلے سال کئی اہم مقدمات جن میں آرٹیکل 63 (A)
کی تشریح اور اسمبلیوں کی تحلیل شامل تھے میں سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کی تھی۔
ان مقدمات میں چیف جسٹس نے منصور اعوان کے دلائل اور وکالت کے طریقے کار کی تعریف بھی اوپن کورٹ میں کی تھی ۔
پسند کا اٹارنی جنرل لگا کر عدلیہ ججز تعیناتی میں اثر انداز ہونا چاہتی ہے
سینئر قانون دان اور سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی کے مطابق اٹارنی جنرل کی تعیناتی میں حکومت کو عدلیہ  کی مداخلت تسلیم نہیں کرنی چاہئے تھی. ان اکا کہنا تھا  عدلیہ کی پسند کا اٹارنی جنرل لگانے کی روایت سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور سے شروع ہوئی تھی.
ان کا کہنا تھا کہ  اس معاملے عدلیہ کی مداخلت اپنے آئینی کردار سے تجاوز ہے اور موجودہ حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے. یہ مداخلت جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نظریات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
عابد ساقی کے مطابق عدلیہ پسند کا اٹارنی جنرل لا کر جوڈیشل کمیشن سے اپنی مرضی کے ججز تعینات کروانا چاہتی ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے سال جولائی میں ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ  سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لئے چیف جسٹس کے نامزد کردہ  ناموں کو جوڈیشل کمیشن نے اکثریت رائے کی بنیاد پر مسترد کر دے تھے۔
اور چیف جسٹس کی نامزدگیوں کو مسترد کرنے میں اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کی مخالفت  نے اہم کردار ادا کیا ۔
سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین نے بھی اٹارنی جنرل کی تعیناتی میں مداخلت کو غیر آئینی قرار دیا. ان کے خیال میں اس مداخلت سے جوڈیشل کمیشن کے کام پر اعتراضات میں اضافہ ہوگا
اٹارنی جنرل ملک کا چیف لا افسر ہوتا ہے جو کہ اعلی عدالتوں میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتا ہے.  آئیں کے آرٹیکل سو کے مطابق اٹارنی جنرل کی تعیناتی وفاقی حکومت کی صوابدید ہوتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here