جنوری 12 ، 2023
تحریر: ارشد مہمند
لاہور
پاکستان میں رواں سال کے پہلے گیارہ دن میں خیبر پختونخواہ میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے خلاف چوتھا احتجاجی مظاہرہ قبائلی ضلع مہمند میں ہوا. مظاہرے میں پشتون سیاسی پارٹیوں کے کارکنان اور مقامی قائدین کی جانب سے امن جرگہ کے نام پر اکھٹے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پر قابو پانے کے حوالے سے موثر کاروائی کریں۔
اس سے قبل بنوں جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں امن مارچ ہوئے منعقد کے گے تھے جب کہ قیام امن کے لئے وانا میں احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
اے این پی کے ایم پی اے نثار مہمند نے کہا اگر قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورت حال خراب ہو گی تو بدامنی سارے ملک میں پھیلے گی اس لئے قبائلی عوام امن چاہتے ہیں جب یہاں امن ہوگا تو کراچی میں بھی امن ہوگا لاہور میں امن ہوگا اسلام آباد میں بھی امن ہوگا. ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے امن کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی تو پھر بدامنی صرف اٹک کے اس پار نہیں رہے گی بلکہ سارے پاکستان میں بد امنی پھیلے گی۔
“اس دفعہ اس طرح بلکل نہیں ہوگا ہم ریاستی اداروں اور پاکستان حکومت کو کہتے ہیں کہ بد امنی کو ختم کریں ہمیں روزگار تعلیم صحت اور ترقی چاہئے “۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں جس میں اکثریت کا تعلق پشتون قوم سے ہیں جبکہ اس کے ساتھ قبائلی اضلاع اور مالاکنڈ ڈویژن میں فوجی اپریشنز بھی ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں جنگ سے متاثرہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے گھر تباہ ہو گئے ہیں اور انکے روزگار ختم ہونے کے ساتھ ساتھ انکے ورثاء لاپتہ ہو گئے ہیں۔
جے یو آئی کے مقامی رہنماء ارشد بختیار نے کہا یہاں پر بد امنی ہے اس لئے تو لوگ جمع ہو رہے ہیں اور یہ احتجاج ہو رہی ہے اس لئے تو یہ جرگے ہو رہے ہیں بلکل بدامنی ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ روزانہ لوگ ٹارگٹ کیلنگ کا شکار ہو رہےہیں اور 2007 سے 2016 کا دور دوبارہ آ رہا ہے اور ہم اس دور میں دوبارہ نہیں جانا چاہتے۔
احتجاج کرنے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر ریاست نے امن قائم نہیں کیا تو یہ لوگ احتجاج کا دائرہ بڑھا کر صوبائی سطح پر احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔
سیاسی و سماجی کارکن مولانا خان زیب کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر جو یہاں جو جرگے منعقد ہو رہے ہیں تمام پختونخواہ میں یہ پھیل رہے ہیں ریاست کو اس آواز کو سننا ہوگا ہمارا مطالبہ ریاست سے ہیں اور آئین کے تحت ہے ریاست کو عوام کو تحفظ روزگار امن دینا انکی زمہ داری ہے اور ہم امن چاہتے ہیں۔
احتجاج کا یہ سلسلہ خیبر پختونخواہ میں اگست کے مہینے سے شروع ہوا ہے جب مقامی لوگوں کے مطابق سوات میں مسلح افراد کی موجودگی اور دیر میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار پر فائرنگ ہوئی تھی جس کے خلاف دیر اور سوات میں بدامنی کے خلاف اور امن کے حق میں احتجاجی تحریک کا سلسلہ شروع ہو کر قبائیلی اضلاع اور پختونخواہ تک پھیل گیا اور اس وقت پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات بھی چل رہے تھے اور مقامی لوگ جگہ جگہ مسلح افراد کے دکھائی دینے کا دعوی کر رہے تھے۔