فروری  24 ،  2023

تحریر: ریحان پراچہ


لاہور

سینئر وکیل اور پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل لطیف کھوسہ نےپاکستان بار کونسل کی جانب سے جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا کے مطابق ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ تمام صوبائی اور وفاقی بار کونسلز نے اجتماعی طور پر لیا تھا۔

22 فروری کو منیزے جہانگیر کے شو کے ساتھ اسپاٹ لائٹ میں بات کرتے ہوئے کھوسہ نے کہا کہ بار کونسل کو جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے اعلان نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ کونسل ایک سیاسی جماعت کے ترجمان کے طور پر کام کر رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ پر تنقید کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔

لطیف کھوسہ کے اس بین پر رد عمل دیتے ہوۓ پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وائس پی کے کو بتایا ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ تمام صوبائی اور وفاقی بار کونسلز نے اجتماعی طور پر لیا تھا۔پاشا نے کہا، “یہ فیصلہ قانونی برادری کی اجتماعی حکمت کے بعد آیا ہے نہ کہ صرف مخصوص افراد کے”۔

جب ججز ہماری حدود میں داخل ہونگے تو ہم بھی سوال اٹھائیں گے، خواجہ آصف

دوسری جانب وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ جب ججز ہماری حدود میں داخل ہونگے تو ہم بھی سوال اٹھائیں گے۔ قومی اسمبلی میں پالیسی بیان پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سوموٹو کیس سے متعلق کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں، اس کے اثرات موجودہ حالات کے ساتھ مستقبل پر بھی منفی پڑ سکتے ہیں، پورا سپریم کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرے، مختلف فریق سے پوچھے اور ایسا حل دے جو آنے والے وقت میں آب حیات ہو۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی حکومت ختم کرکے زیادتی کی گئی، میں اپنی حدود کراس کرنا نہیں چاہتا، میں تنقید کرنا نہیں چاہتا، اچھی بات یہ ہے کہ 9 رکنی بینچ بنایا گیا ہے، یہ فیصلہ 9 ججز نہیں بلکہ فل کورٹ کو سننا چاہیے، پوری کورٹ فریقین کو سن کر فیصلہ کرے، پوری قوم عدالتی فیصلوں سے متاثر ہوتی ہے۔

خواجہ آصف کے مطابق پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک شکایت رہتی ہے کہ پارلیمنٹیرینز ججز کا نام لےکر تنقید کرتے رہتے ہیں، کچھ ججز پر تنقید کی جاتی ہے تو کچھ پر کیوں نہیں ہوتی؟جسٹس ثاقب اورجسٹس کھوسہ پرتنقید ہوتی ہےتوجسٹس ناصرالملک پرکیوں نہیں ہوتی؟ یہ سوال عدلیہ کے لیے ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ جب ججز ہماری حدود میں داخل ہونگے تو ہم بھی سوال اٹھائیں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہےکہ دو اسمبلیوں کی تحلیل درست ہوئی ہے یا نہیں؟آئین کو ری رائٹ کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے،جس طرح آرٹیکل 63 کو ری رائٹ کیا گیا ہے یہ اس کے اثرات ہیں۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here