یکم فروری ، 2023
تحریر: احمد سعید
لاہور
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے پارٹی کے سینئر نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے وہ جب تک سیاست میں سرگرم رہیں گے، وہ پاکستان مسلم لیگ نون کے ساتھ ہی وابستہ رہیں گے.
سابق وزیر اعظم موجودہ مخلوط حکومت کی کارگردگی اور مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بنانے کے فیصلے سے نا خوش تھے. تاہم ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نون ان کی جماعت ہے اور وہ اپنی جماعت سے کیسے ناراض ہو سکتے ہیں. ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنانے کا فیصلہ ہو گیا ہے اور اب یہ ان کے لئے چلینج ہے کہ وہ کیسے پارٹی کو منظم کرتی ہیں.
شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ نوں کے سینئر رہنما سمجھے جاتے ہیں اور جب دو ہزار سترہ میں نواز شریف کو نا اہل کیا گیا تو پارٹی نے شاہد خاقان کو بقیہ مدت کے لئے وزیر اعظم مقرر کر دیا. دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں وہ اپنے حلقے مری سے الیکشن ہار گے تاہم بعد میں پارٹی نے انھیں لاہور میں مسلم لیگ نوں کے گڑھ تصور کے جانے والے حلقے سے ضمنی انتخابات میں ٹکٹ دے کر ممبر قومی اسمبلی منتخب کروایا.
شاہد خاقان عباسی نے پچھلے ماہ اپنے ہم خیال سیاست دانوں کے ساتھ مل کر ری امیجننگ پاکستان کے عنوان سے ایک فورم کی بنیاد رکھی ہے جس کے تحت پاکستان کے بڑے شہروں میں سیمینارز منعقد کے جائیں گے.
‘ملک کے نظام میں مسائل حل کرنے کی طاقت نہیں’
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان منیزے جہانگیر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نظام کو سوچنا ہوگا ہم کہاں کھڑے ہیں، سیاسی لیڈر ایک دوسرے کی بات نہیں سُن رہے ہیں لیکن ملکی مسائل پر بات چیت ہونی چاہئے اور معاشی مسائل کے حل کے لئے وسیع ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔
ری امیجننگ پاکستان فورم میں شاہد خاقان عباسی کے علاوہ سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل شامل ہیں. اس حوالے سے کوئٹہ اور پشاور میں سیمینارز کا انعقاد بھی ہو چکا ہے جن میں گوادر، مسنگ پرسنز سمیت ان موضوعات پر گفتگو جن پر عمومی طور پر گفتگو نہیں کی جاتی.
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں عوام کے مسائل پر بات نہیں ہو رہی ہے اور جو قانون سازی ہو رہی ہے اس کا مقصد بھی حکمرانوں کے لئے آسانی پیدا کرنا ہوتی ہے.
اس سوال کے جواب میں کہ پارلیمان سے باہر ہونے والے مذاکرات کی کیا حثیت ہوگی، شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان کی اس کاوش کا مقصد پاکستان کے عوام کے اصل مسائل پر بات کرنا ہے، اس لئے ان کو کریڈیبلٹی نہیں چاہئے کیوں کہ انہوں نے کوئی نیا سیاسی راستہ نہیں اپنانا.
‘آئین ججز اور فوجیوں کو ملک کے معاملات کے بارے میں بات کرنے سے منع نہیں کر سکتا’
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں ملک کے مسائل کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے اور نظام کو سوچنا پڑے گا کہ ہم کہاں کھرے ہیں اور ہم کو کیا کرنا چاہئے.
سابق وزیر اعظم یہ تجویز دی کہ گرینڈ نیشنل ڈائلاگ ہونا چاہئے جس میں فوج، عدلیہ، سیاست دانوں اور میڈیا کو بیٹھ کر ملک کے حقیقی مسائل پر بات کرنی چاہئے. انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوج اور عدلیہ کو سیاست میں ملوث ہونے کا نہیں کہہ رہے بلکہ وہ ان کو ملکی مسائل کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ ججز کے فیصلے ملکی حالات پر اثر انداز ہوتے ہیں.
ان کا کہنا تھا فوج کا ملک کے معملات میں اثر ہمیشہ سے رہا ہے اور ٢٠١٨ کے الیکشن اس کی بدترین مثال ہیں. شاہد خاقان عباسی کے مطابق وہ ملک کے مسائل کا حل آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ڈھونڈھنا چاہتے ہیں اور آئین کہیں منع نہیں کرتا کہ فوجی اور ججز بیٹھ کر ملک کے معاملات کے بارے میں بات نہیں کر سکتے.
‘بغاوت کے مقدمات بنانا سیاسی غلطی ہوتی ہے’
موجودہ حکومت میں سیاسی لوگوں پر بغاوت کے مقدمات بنانے کی روش کی مخالفت کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا اس طرح کے مقدمات میں کوئی جان نہیں ہوتی. ان کا کہنا تھا کہ جس طرح فواد چودھری کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا گیا وہ غلط تھا اور اس کا سیاست میں ہمیشہ نقصان ہوتا ہے
انتخابات پر بات کرتے ہوئے لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، ہم الیکشن میں کوئی تاخیر نہیں چاہتے، لہٰذا انتخابات اسی سال اپنے وقت پر ہوں گے، اپریل میں ضمنی اور اکتوبر میں جنرل الیکشن ہوں گے