فروری 8 ،  2023

تحریر: ریحان پراچہ


لاہور

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقو ق (ایچ آر سی پی) نے اپنی  مذہبی آزادی کی سالانہ رپورٹ میں حکومت کو  اقلیتوں پر ظلم و ستم کے معاملے کو سنجیدہ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایچ آر سی پی  نے اِعتماد کو ٹھیس: 2021-22 میں مذہب یا عقیدے کی آزادی کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ میں تشویش کا اظھار کرتے ہوۓ کہا کہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حوالے سے ریاست کے پُرعزم دعوے جھوٹ پر مبنی تھے۔
جبری مذہب تبدیلی کے واقعات
 رپورٹ کے مطابق سندھ میں جبری مذہب تبدیلی کے واقعات تشویشناک حد تک تواتر کے ساتھ جاری ہیں۔صرف 2021 میں، مقامی میڈیا میں جبری مذہب  تبدیلی کے تقریباً 60 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سے 70 فیصد لڑکیاں تھیں جن کی عمریں 18 سال سے کم تھیں۔ سندھ  میں 2021 کی دوسری ششماہی میں جبری مذہب  تبدیلی  کے کم از کم دس واقعات اور 2022 کی پہلی ششماہی میں 11 کیسز رپورٹ ہوئے۔ایچ آر سی پی کے مشاہدہ کے مطابق، ،جبری مذہب  تبدیلی کے واقعات زیادہ تر کم آمدنی والے ہندو اور عیسائی  خاندانوں کی نوجوان لڑکیوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ جبری تبدیلی مذہب کا بڑا حصہ پنجاب اور سندھ میں ہوتا ہے، جس میں ہندو اور عیسائی گھرانوں کی ایک بڑی آبادی ہے۔
اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی
 سال 2021/22 کے دوران مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور مذہبی اہمیت کے مقامات کو نشانہ بنایا گیا ۔ اگست 2021 میں، رحیم یار خان کے بھونگ شریف میں سدھی ونائک مندر میں  توڑ پھوڑ کی گئی کہ علاقے کے ایک نوجوان ہندو لڑکے نے قرآنی صحیفوں کی بے حرمتی کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا  کہ مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی خبریں آتی رہتی ہیں، لیکن جب اس طرح کے واقعات احمدیہ برادری سے وابستہ مقامات  سےمنسلک ہوں تو پھر ریاست کی طرف سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آتا ۔
نکاح نامے میں عقیدے کے لازمی اظہار
 پنجاب میں، شادی کے سرٹیفکیٹ میں عقیدے کے لازمی اظہار نے احمدیہ برادری کے   مسائل میں اور زيادہ اضافہ کر دیاہے۔اس عمل سے احمدیہ کمیونٹی اور مسلم آبادی میں خلیج  بڑھ گیا ہے اور احمدیہ کمیونٹی کو امتیازی سلوک اور تشدد کا زیادہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
 
یکساں قومی نصاب نے اقلیتوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا
 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  یکساں قومی نصاب کو نافذ کرنے کی کوششوں نے ایک ایسا خارجی بیانیہ تشکیل دیا ہے جس نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں دیوار کے ساتھ لگایا ہے۔قومی نصاب میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے نظر ثانی کی جانی چاہیے کہ سیکولر مضامین میں کوئی مذہبی مواد یا کوئی ایسا مواد نہ ہو جو مذہبی اقلیتوں اور فرقوں یا ان کے عقائد کے خلاف امتیازی سلوک کرتا ہو۔
بنیادی اور ثانوی سطح پر مذہبی علوم کو مثالی طور پر صرف اسلام تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے بجائے پاکستان کے کثیر العقیدہ کردار کی عکاسی کرنا چاہیے۔ اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو شکایات کے موثر طریقہ کار اور جوابدہی کے طریقہ کار کو نافذ کرنا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ طلباء کو ان کے مذہب یا فرقے کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے محفوظ رکھا جائے۔
جبری تبدیلی کو جرم قرار دینے کے لیے فوری قانون سازی
رپورٹ میں جبری تبدیلی کے خلاف قانون سازی کو جلد از جلد نافذ کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ  اس بات کو یقینی بنایا جائے  کہ 18 سال سے کم عمر کے افراد قانونی طور پر مذہب تبدیل نہ کر سکیں۔ ان افراد پر دباؤ کے خطرے کے پیش نظر، انکوں مذہب تبدیل کرنے کے ارادے کے بعد ایک معقول مدت کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اس دباؤ کے تابع نہ ہوں۔کسی نابالغ پر مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا جرم ہونا چاہیے۔رپورٹ کے مطابق، جبری مذہب تبدیلی اور جبری شادیاں اکثر ساتھ ساتھ چلتی ہیں اسلیے شادی کی قانونی عمر کو بھی سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے مطابق صوبوں میں معیاری بنایا جانا چاہیے۔
 
آزادانہ خود مختار قومی کمیشن برائے مذہبی اقلیتوں کا قیام
ایچ آر سی پی نے اپنے اِس مطالبے کا اعادہ کیا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے 2014 کے جیلانی فیصلے کی رُوح کے مطابق اقلیتوں کے لیے نمائندہ اور خود مختار قانونی قومی کمیشن تشکیل دیا جائے۔یہ کمیشن  صرف مذہبی اقلیت اور فرقے کے نمائندوں پر مشتمل ہونا چاہیے  بشمول نظر انداز کیے گئے  بدھ، پارسی اور بہائی کمیونٹیز کے۔ کمیشن کے پاس قومی دائرہ اختیار ہونا چاہیے اور وہ مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کے ثبوت اکٹھے کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے میکانزم قائم کرے۔
 
مذہبی اقلیتوں کا کوٹہ
ایچ آر سی پی نے تعلیم اور روزگار میں مذہبی اقلیتوں کے کوٹوں اور جوابدہی کے طریقہ کار از سرِ نو جائزہ لینے پر بھی زور دیا ہے تاکہ ان کوٹوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔کسی بھی حالت میں صفائی کے کارکنوں کو بھرتی کرتے وقت ملازمت کے اشتہارات میں ‘صرف غیر مسلموں’ کا مطالبہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مذہبی اقلیتوں نے مردم شماری کے نتائج پر اعتراض اٹھایا ہے جس میں ملک میں انکی تعداد کم ظاہر کی گئی ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اگلی مردم شماری میں تمام مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کو درست طریقے سے شمار کیا جائے۔ تاہم، اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ لوگوں کو اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
 دیگر سفارشات میں  ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست فرقہ وارانہ تشدد کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ صرف قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کرے بلکہ ایسا قومی بیانیہ تیار کرے جو مذہبی انتہا پسندی اور اکثریت پسندی کو واضح طور پر رد کرے۔ مذہب کی بےحرمتی کے جرم میں شہادت کا کڑا معیار مقرر کیا جائے تاکہ لوگ متناعہ قوانین کو ذاتی انتقام کے لیے  بطورِ ہتھیار استعمال نہ کریں جیسا کہ اکثر ہو رہا ہے۔
 ایچ آر سی پی کے مطابق، اگر یہ اقدامات فوری طور پر نہ کیے گئے تو پھرپاکستان میں عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور تشدد کے مرتکب افراد کو کھلی چھوٹ کا ماحول فروغ پاتا رہے گا، جس سے مذہبی آزادی کے لیے پہلے سے  تنگ فضا مزید سکڑ جائے گی۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here