پریس ریلیز


18, مارچ 2023

سوات، 18 مارچ 2023 خیبر پختونخوا (کے پی) میں ایک اعلیٰ سطحی فیکٹ فائنڈنگ مشن کے اختتام پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ایچ آر سی پی نے نئے ضم ہونے والے اضلاع کے باشندوں میں شدید مایوسی کا مشاہدہ کیا ہے، جو کہ اب بھی منتظر ہیں کہ ریاست ان علاقوں کو صوبے کے مرکزی دھارے میں لائے اور دستور کے تحت ان کے شہری، سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کو تفحظ فراہم کرے۔

 

مشن میں ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی، وائس چیئر ایچ آر سی پی کے ہی اکبر خان، اور ایچ آر سی پی کے ارکان جمیلہ گیلانی اور پروفیسر اعجاز خان شامل تھے۔ ٹیم نے بنوں، پشاور، خیبر اور سوات میں سول سوسائٹی کے اراکین، صحافیوں، وکلاء اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں سے گفتگو کی۔

 

مشن کو 2018 میں 25ویں آئینی ترمیم کے بعد مغربی کے ہی میں سول انتظامیہ اور منتخب نمائندوں کو اختیارات کی منتقلی میں غیر ضروری تاخیر پر تشویش ہے۔ انضمام جس کا بہت زیادہ چرچا کیا گیا، کا بنیادی مقصد جان و مال کا تحفظ تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پانی و بجلی اور انصاف تک رسائی ،تها، بشمول علاقے کی عدالتوں کے ذریعے۔ اگرچہ اس میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے، لیکن یہ کام بہت سست روی کا شکار ہے۔

 

مشن کے لیے خاص طور پر تشویش کا باعث کے پی میں عسکریت پسندی کا دوبارہ ظہور ہے، اور ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی اطلاعات نے صورت حال اور زیادہ گھنمبیر بنا دیا ہے۔ نئے ضم شدہ اضلاع میں سیکورٹی فورسز کی مسلسل موجودگی اور گرفت نے مقامی حکومت اور سول انتظامیہ کے اختیارات کو کمزور کیا ہے۔ اس سے مقامی باشندے بھی فکرمند ہیں جن کا کہنا ہے کہ اگر اس خطے میں سیکیورٹی فورسز کی موجودگی اتنی بڑے اور وسیع پیمانے پر رہتی ہے تو امن کیسے برقرار رہے گا؟ اس تناظر میں، ایچ آر سی پی وسیع پیمانے کی سیلف سنسر شپ سمیت نقل و حرکت اور تقریر کی آزادی پر جاری پابندیوں کی اطلاعات پریشان ہے۔

 

ایچ آر سی پی نے حالیہ بلدیاتی انتخابات کا خیر مقدم کیا ہے، لیکن مشاہدہ کیا ہے کہ منتخب نمائندوں کو مناسب فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے نظام شدید متاثر ہو رہا ہے، کئی مقامی نمائندوں نے شکایت کی ہے کہ ان کے پاس کام کرنے کی جگہ بھی نہیں ہے۔ در حقیقت، ایچ آر سی پی کو متعدد ذرائع سے موصول ہونے والے ان الزامات پر شدید تشویش ہے کہ انضمام اور اس کے نتیجے میں ترقیاتی سکیموں کے لیے جو فنڈز مقامی حکام کو منتقل کیے جانے چاہیے تھے وہ بدعنوانی کی نذر ہو گئے ہیں یا پھر دوسرے علاقوں کو دے دیے گئے ہیں۔

 

بہر حال مشن خاص طور پر مزاحمت کے اس جذبے سے متاثر ہوا جسے سوات کے مقامی باشندوں نے اولسی پاسون (عوامی مزاحمت) کی شکل میں جاری رکھا ہوا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ عسکریت پسندی کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نئے ضم ہونے والے اضلاع میں امن و امان کی بحالی کا عمل سست روی کے باوجود پولیس میں اصلاحات اور استعداد کار میں اضافے سے متعلق مضبوط پالیسیوں کی صورت میں نظر آتا ہے. سب سے بڑھ کر ایچ آر سی پی کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ نئے ضم شده اضلاع کے نوجوان سیاسی لحاظ سے بہت زیادہ متحرک ہیں جو ریاست سے جائز مطالبات کرنے کے لیے آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے اپنے آئینی حق کو استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here