مارچ  23  ،  2023

تحریر: ریحان پراچہ


لاہور

پشاور ہائی کورٹپشاور ہائی کورٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس اور وفاقی سیکرٹری اطلاعات کو پولیس کی حراست میں ملزمان کے  کے انٹرویو  سوشل میڈیا اور چینلز پر چلانے پر پابندی کی درخواست پر جواب دینے کی ہدایت کی۔

درخواست گزار جابر خان کے وکیل ضیاءالر حمان  کے مطابق  پولیس کے زیر حراست ملزمان کے  انٹرویوز سوشل میڈیا پر نشر کرنا انسانی وقار اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور آئین کے آرٹیکل 10-اےاور 14 میں دیے گئے  منصفانہ ٹرائل کے اصول کے منافی ہے ۔
درخواست گزار کے وکیل ضیاءالر حمان کا کہنا ہے کہ  صحافیوں اور میڈیا آؤٹ لیٹس، یوٹیوب چینلز اور وی لاگرز کا معمول بن چکا ہے کہ وہ گرفتاری کے فوراً بعد تفتیش کے دوران مشتبہ افراد کا انٹرویو لیتے ہیں جو کہ آئین کے آرٹیکل 14 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

پولیس افسران کی جانب سے ٹی وی اور سوشل میڈیا چینلز کو ملزمان تک رسائی دینا  غیر قانونی ہے  کیونکہ ملزمان کو ٹرائل شروع ہونے سے بہت پہلے ہی مجرم قرار دے دیا جاتاہے۔

درخواست گزار  نےعدالت سے  صحافیوں، ٹی وی رپورٹرز، بلاگرزاور یوٹیوبرز کو  پولیس اسٹیشن اور جیلوں میں مشتبہ افراد کے انٹرویو کے لیے رسائی روکنے کے احکامات بھی مانگے ہیں۔

وکیل نے دلیل دی کہ زیر حراست ملزم کا انٹرویو کرنا نہ صرف ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین کے خلاف ہے بلکہ یہ کسی فرد اور غیر جانبدارانہ تفتیش کے آزادانہ اور منصفانہ ٹرائل کو متاثر کرنے کے مترادف ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 10-اے کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ  ایک ملزم کو تب تک بے قصور سمجھا جاتا ہے جب تک کہ وہ مجرم ثابت نہ ہو جائے۔

جسٹس محمد ابراہیم خان اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل بنچ نے متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کرتے ہوۓ زیر حراست ملزموں کے اٹرویوز نشر کرنے پر پابندی لگانے کی درخواست  پرسماعت 14 اپریل تک ملتوی کردی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here