مارچ 15 ، 2023
تحریر: احمد سعید
لاہور
سینئر وکلاء نے عمران خان کی گرفتاری کے لئے جاری پولیس اور رینجرز کے آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں جاری نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری ایک معمول کی کاروائی ہوتی ہے، جس کی تعمیل کے لئے اس طرح کا آپریشن بلکل غیر ضروری تھا۔
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی کا کہنا تھا کہ اس طرح کے وارنٹ کی تعمیل عدالتوں کے نائب قاصد کرواتے ہیں اور اس کا مقصد گرفتاری نہیں ہوتا صرف متعلقہ شخض کی اگلی پیشی پر عدالت میں حاضری کو یقینی بنانا ہوتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے وارنٹ گرفتاری کی منسوخی کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ کہ کر نمٹا دیا کہ پی ٹی آئی وارنٹ کی منسوخی کے لئے متعلقہ ٹرائل کورٹ سے رجوع کرے۔
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا کا موقف تھا کہ اس طرح کے وارنٹ کی تعمیل کروانے کے لئے ڈی آئی جی نہیں جاتا بلکہ یہ کام تو کانسٹیبل کا ہوتا ہے اور اگر وہ ناکام رہے تو زیادہ سے زیادہ علاقے کا ایس ایچ او متعلقہ شخض کو اگلی پیشی پر عدالت پہنچنے کی تاکید کرتا ہے. ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں پولیس نے واضح طور پر حد سے تجاوز کیا ہے۔
حکومتی اتحاد میں شامل جماعت جمیعت علماے اسلام کے سینیٹر اور سینئر وکیل کامران مرتضیٰ کا بھی ماننا تھا کہ اس طرح کے وارنٹ گرفتاری کے لئےاتنا بڑا اور پر تشدد آپریشن کسی صورت جائز نہیں تھا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گرفتاری کی کوشش کی آڑ میں حکومت دراصل مستقبل کی کسی بڑی کاروائی کے لئے عوامی جذبات کو جانچ رہی ہے۔
وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والے جج کون ہیں؟
واضح رہے کہ اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ ریفرنس کیس میں عمران خان کو اٹھارہ مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کے لئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کے تھے. توشہ خانہ ریفرنس میں مقدمے کی ابتدائی کاروائی مکمل ہو چکی ہے اور اگلی سماعت پر ملزم عمران خان پر فرد جرم عائد ہونی ہے جس کے بعد با قاعدہ ٹرائل کا آغاز ہو جاے گا۔
یاد رہے کہ عمران خان کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے فروری 2022 میں محسن بیگ کی ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور اس فیصلے کے بعد عمران خان نے بطور وزیر اعظم وزارت قانون کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ ریفرنس دائر کر کے ان کو عہدے سے ہٹانے کی کاروائی کرے۔
سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان کا کہنا تھا کہ جس طرح معمول کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لئے طاقت کے استمعال کیا گیا ہے اس سے حکومت کی بدنیتی واضح ہوتی ہے اور اس لئے ہائی کورٹ میں وارنٹ منسوخی کی درخواست دائر کی ہے. جب ان سے پوچھا کیا گیا کہ کیا آپ عمران خان کو رضاکارانہ گرفتاری کا مشورہ دیں گے تو اس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ ان کی اس حوالے سے عمران خان سے جو گفتگو ہوئی ہے وہ اس کو پبلک نہیں کرنا چاہتے۔
‘توشہ خانہ میں گرفتار کرنے بعد عمران خان کو باقی مقدمات میں بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے’
عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے وکیل اور سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کے مطابق حکومت عمران خان کو اس عدالتی وارنٹ کی آڑ میں گرفتار کر کے ان کو کئی اور مقدمات میں پھسانا چاہتی ہیں تاکے وہ آنے والے انتخابات میں اپنے پارٹی کی قیادت نہ کر سکیں۔
احمد اویس کا کہنا تھا کہ ہر عدالت میں اس طرح طلبی کے وارنٹ جاری ہوتے ہیں مگر پولیس کبھی ایسے شخض کو گرفتار نہیں کرتی. اس لئے پولیس کی گرفتاری کے لئے بے چینی سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ گرفتار کرنے کے بعد عمران خان کی دیگر مقدمات میں بھی گرفتاری ڈال دی جاے گی تاکے وہ لمبے عرصے تک اندر رہیں۔
ان کا کہنا تھا اگر اعلی عدالتوں نے اس سارے عمل کو نہ روکا تو پھر سپریم کورٹ عوام کی نظروں میں اپنی قدر کھو دے گی اور ملک انارکی کا شکار ہو جاے گا۔
کیا عمران خان کے ورکرز کا احتجاج آئینی حق ہے؟
عمران خان کی گرفتاری کے لئے آپریشن کو کو لاہور ہائی کورٹ نے جعمرات کی صبح دس بجے تک روکنے کا حکم دیا ہے. چوبیس گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والے اس آپریشن میں پولیس اور پی ٹی آئی کے ورکرز میں آنسو گیس اور پتھراو جاری رہا. اس آپریشن کے دوران پولیس کے ساٹھ کے قریب لوگ زخمی ہوئے جب کہ تحریک انصاف کے مطابق آنسو گیس کے فائر کے گے شیل ایکسپائرڈ تھے جس کی وجہ سے ان کے کئی کارکن بیہوش اور زخمی ہو گے۔
وکلاء کے مطابق پولیس نے طاقت کا زیادہ استمعال کیا جو کہ قطعی ضروری نہیں تھا اور عمران خان کی گرفتاری پر مزاحمت کرنا کارکنان کا آئینی حق تھا۔
عابد ساقی کا کہنا تھا بطور وکیل ان کے لئے اس ساری صورتحال میں سب سے تشویش ناک بات ہی یہ ہے کہ حکومت لوگوں کے احتجاج کے حق کو بزور طاقت روک رہی ہے. ” احتجاج کبھی بھی غلط نہیں ہوتا کیوں کہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا لوگوں کی بقا کی ضمانت ہوتا ہے”۔
چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل حسن رضا کے مطابق اگر چہ احتجاج کرنا لوگوں کا حق ہے اور پولیس تشدد نہیں ہونا چاہئے لیکن یہ لیڈرشپ کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ حالات اس نہج تک نہ لے کر جاے کہ امن وامان کو برقرار رکھنے کے لئے پولیس کو طاقت استمعال کرنی پڑے۔
حسن رضا کا کہنا تھا پاکستان بار کونسل پولیس اور مظاہرین دونوں کی جانب سے تشدد کے واقعات کی مذمت کرتی ہے۔
کیا عمران خان کو ویڈیو لنک کی سہولت دی جا سکتی ہے؟
عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں جج کے سامنے درخواست دائر کر کے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے لہذا ان کو بذریعہ وڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت دی جاے. اس حوالے سے وکلاء کا متضاد موقف تھا. چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل حسن رضا کے مطابق عمران خان کو خود پیش ہو کر عدالت سے باقی کاروائی بذریعہ ویڈیو لنک پر کرنے کی استدعا کرنی چاہئے تاکہ عدالت کا وقار بحال ہو سکے۔
تاہم عابد ساقی کے مطابق عدالت کو عمران خان کو درپیش خطرات کے سبب ان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کی استدعا کو منظور کرلینا چاہئے کیوں کہ اب ایسا کرنا معمول کی بات ہے۔