اپریل 14 ، 2023
تحریر: احمد سعید
لاہور
پاکستان میں جاری سیاسی اور آئینی بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور بعض سیاسی پنڈتوں کے مطابق صورتحال مائنس ون کی طرف بڑھ رہی ہے۔
یعنی یا چیف جسٹس عمر عطا بندیال مائنس ہوں گے یا پھر وزیر اعظم شہباز شریف
قانونی ماہرین کے مطابق چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کے پاس کردہ بل کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لئے آٹھ رکنی ہم خیال’ بینچ بنا کر حکومت کے ساتھ باقاعدہ قانونی جنگ کا آغاز کر دیا ہے
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا تھا کہ مائنس ون کی صورتحال بن چکی ہے اب حکومت کو یا چیف جسٹس کو گھر جانا پڑے گا۔ “چیف جسٹس نے اس ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اور اگر ملک میں مارشل لاء لگا تو ذمے دار صرف چیف جسٹس ہوں گے”
کیا مائنس ون ناگزیر ہو چکا ہے؟
سیاسی ماہرین کے مطابق اب یا تو وزیر اعظم شہباز شریف یوسف رضا گیلانی کی طرح توہین عدالت میں نا اہل ہوں گے یا پھر چیف جسٹس عمر عطا بندیال ١٩٩٧ کی طرح سپریم کورٹ کے اندرونی لڑائی کا شکار ہو کر گھر چلے جائیں گے
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون آج دن تک سجاد علی شاہ کے واقعے کی صفایاں دے رہی مگر جنگ شروع ہونے کے بعد سب کچھ جائز ہوتا ہے
اس سے قبل پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا الله نے آج نیوز کے پروگرام سپاٹ لائٹ میں منیزاۓ جہانگیر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی نہیں ہو سکتی کیوں کہ سپریم کورٹ چار تین کی اکثریت سے از خود نوٹس ختم کر چکی ہے
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اب تک یکم مارچ کو ہونے والی سماعت کا حکمنامہ جاری نہیں کیا جب کہ اس حوالے سے بینچ کا حصہ رہنے والے چار ججز کے نوٹس سامنے آ چکے ہیں جن کے مطابق یہ درخواستیں چار تین سے مسترد ہو چکی ہیں. بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل کئی دفعہ چیف جسٹس سے آرڈر آف دی کورٹ جاری کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں
حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ حکومت اس تکینکی نکتے کے پیچھے چھپ رہی ہے اور یہ بات درست بھی ہے کہ کیونکہ عدالت نے اب تک آرڈر آف دی کورٹ ہی جاری نہیں کیا۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل احمد اویس کی رائے میں کہ کسی بھی صورت میں صرف وزیر اعظم کو گھر جانا ہوگا کیوں کہ چیف جسٹس کے ساتھ پوری وکلا کمیونٹی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ سے متعلق بل کی سماعت کے لئے اپنے ہم خیال ججز کا لارجر بینچ بنا کر درست کیا کیوں کہ دوسرے ججز کے بینچ میں آنے سے سپریم کورٹ میں اختلاف کا تاثر مضبوط ہوتا ہے۔
“1997 اور 2023 کے درمیان بہت فرق ہے۔ ہمارے پاس ایک آئین ہے اور ہمارے پاس ایک چیف جسٹس ہے جس کے ساتھ وکلاء برادری کھڑی ہے،” وہ کہتے ہیں۔ ” آخر چیف جسٹس کیوں دوسرے ججوں کو بنچ میں شامل کریں، جیسے جسٹس عیسیٰ، جس سے صرف ججوں میں اختلافات پیدا ہوں گے؟”
پاکستان بار کونسل کے علاوہ پنجاب اور کے پی بار کونسلز نے بھی چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ بحران کی ذمے داری سپریم کورٹ ہے اور بحران کے خاتمے کے لئے چیف جسٹس فل کورٹ بینچ بنا کر مقدمات کی سماعت کریں۔