اپریل 10 ، 2023
تحریر: احمد سعید
لاہور
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ممبر پاکستان بار کونسل احسن بھون کے کہنا ہے کہ اگر کسی عدالت نے پارلیمنٹ کے پاس کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو معطل یا کالعدم قرار دیا تو پاکستان بھر کے وکلاء ایسے اقدامات کی مزاحمت کریں گے۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر نے وائس پی کے سے گفتگو کرے ہوئے کہا کہ پاکستان کے وکلاء کئی دہائیوں سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر ہونے والے کیسز اور از خود نوٹس کے معملات میں متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا جاے اور از خود نوٹس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اختیارات کے بہتر استعمال کے لئے رولز بناے جائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں پاس کے گے بل کو وکلاء کے تمام دھڑوں بشمول پروفیشنل گروپ کے سربراہ حامد خان نے بھی سراہا ہے۔
سپریم کورٹ کے متعلق بل کیا ہے؟
واضح رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے مارچ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو پاس کر کے منظوری کے لئے صدر کے پاس بھیجا تھا تاہم صدر نے بل پر دستخط کرنے کی بجاۓ اپنے نوٹ کے ساتھ بل کو دوبارہ غور کرنے کے لئے پارلیمنٹ کو بھجوا دیا تھا۔
صدر نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے اور بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
مجوزہ بل کے مسودے کے مطابق اب از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی، جس میں چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین جج شامل ہوں گے۔ بل کے مطابق تین ججوں میں اختلاف کی صورت میں کمیٹی اکثریت رائے کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔
پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کئی مواقعوں پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے اور اپیل کا حق دینے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
جمہوریت ڈی ریل ہوئی تو تاریخ دو ججوں کو قصوروار سمجھے گی
انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے جاری آئینی بحران پر بات کرتے ہوئے احسن بھون کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کو سپریم کورٹ میں غلط ہینڈل کیا گیا کیونکہ کوئی بھی وکیل یا جج آئین کی ایسی تشریح نہیں کر سکتا جس سے انتخابات کی تاریخ نوے روز سے آگے جا سکے۔
ان کا موقف تھا کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے نوے روز میں انتخابات کروانے کا حکم دے دیا تھا تو سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لے کر معاملے کومزید الجھانا نہیں چاہئے تھا. احسن بھون نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ جس طرح سے ملک میں آئینی بحران گہرا ہوتا جا رہا اس کی وجہ سے کہیں جمہوریت ہی ڈی ریل نہ ہو جاے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو تاریخ اس کی ذمے داری ان دو ججز پر ڈالے گی جنہوں نے ایک ملازمت کے مقدمے میں ایک غیر ضروری ازخود نوٹس لے کر سپریم کورٹ کو ایک تنازع میں دھکیل دیا۔
انتخابات نوے روز سے آگے لے جانے کا فیصلے غیر قانونی تھا
احسن بھون کا مزید کہنا تھا کہ جن تین ججوں نے انتحابات کو نوے روز سے آگے لے جانے کا فیصلہ دیا وہ ایک غیر قانونی بات تھی کیوں کہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں تھی اور ججوں کا یہ فیصلہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف تصور ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ایک دفعہ سپریم کورٹ نے انتخابات نوے روز سے آگے لے جانے کی اجازت دے دی ہے تو اس کے بعد الیکشن مکمل بااختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی کی تاریخ پر انتخابات کروا سکے۔
ملک میں جاری سیاسی اور عدالتی بحران کے خاتمے کے لئے احسن بھون کا کہنا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججز سے گزارش کرتے ہیں وہ مل بیٹھ کر اپنی اناؤں کو قربان کر کے اس ادارے کی ساکھ کو بحال کریں کیوں کہ اس میں سب کی عزت ہے۔