مئی ،16 ٢٠٢٣

تحریر: احمد سعید


لاہور

کل ہونے والے کور کمانڈرز کے خصوصی اجلاس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کا ٹرائل آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے بعد پنجاب حکومت نے فوجی املاک پر حملہ کرنے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے فیصلے کی منظوری دی گئی ہے۔
تاہم سینئر وکلا کی رائے اس حوالے سے منقسم ہے کہ آیا کسی سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت سکتا ہے یا نہیں۔
سینئر قانون دان حامد خان کا  کہنا تھا کہ کسی سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت نہیں ہو سکتا اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔
واضح رہے کہ آرمی ایکٹ میں ٢٠١٧ میں ترمیم کر کے اس میں سویلین کے ٹرائل کی شق کو شامل کیا گیا تھا تاہم وہ شق ٢٠١٩ میں ختم ہو گی  تھی۔
لیکن ٢٠١٩ کے بعد اب تک پاکستان  نے دو  سویلینز ادریس خٹک اور حسن عسکری  کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا گیا تھا. حسن عسکری ایک ریٹائر میجر جنرل کے بیٹے ہیں جنہوں نے گننرل باجوہ کے ایکسٹینشن لینے کے فیصلے پر تنقید کی تھی اور اس حوالے سے فوجی افسران کو خطوط لکھے تھے۔
ادریس خٹک انسانی حقوق کے لئے کام کرتے تھے اور ان پر الزام تھا کہ انہوں نے خیبر پختون خواہ میں فوجی حراست گاہوں کے حوالے سے معلومات  کا ملک سے باہر بھیجی تھی۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور سینٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جو کسی سویلین کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کی اجازت دیتا ہو. ان کا کہنا تھا کہ گھیراؤ جلاؤ کرنے والے افراد کے مقدمات عام عدالتوں میں چلنے چاہئے اور چیف جسٹس پاکستان کو چاہئے کہ وہ ایسے مقدمات کے تیز ٹرائل کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کر دیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج اور سینئر وکیل رشید رضوی نے آج نیوز کے پروگرام سپاٹ لائٹ میں میزبان منیزے جہانگیر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی سویلین کا آرمی ایکٹ کے تحت صرف تب ہی ٹرائل ہو سکتا ہے اگر اس کا شریک ملزم کوئی فوجی ہو۔
واضح رہے کہ ماضی میں بہت سے ایسے ملزموں کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہو چکا ہے جن پر شبہ تھا کہ وہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث تھے، تاہم بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے ان کے ٹرائل کو غلط  قرار دے دیا تھا۔
آرمی ایکٹ کے تحت سزا یافتہ افراد کے وکیل شبیر گگیانی کے مطابق آرمی ایکٹ اب سویلین پر ہرگز لاگو نہیں ہوتا اور اگر کسی کوئی کوشش کی بھی تو وہ غیر آئینی ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے رولز کے تحت آرمی صرف ان لوگوں کا ہی ٹرائل کر سکتی ہیں جو فوج کے ملازم ہوں، کسی بھی سویلین کا ٹرائل اسپیشل ٹربیونل ہی کر سکتا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے سبق وائس چیئرمین امجد شاہ کے مطابق پاکستان بار کونسل نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو کئی دفعہ درخواست کی تھی کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے اس میں سویلین کے ٹرائل کی تمام صورتوں کو ختم کیا جاے مگر انہوں نے ہماری بات سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
 اس حوالے سے وائس پی کے نے سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم سے رابطہ کیا مگر ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here