٦ مئی ٢٠٢٣

تحریر: احمد سعید


لاہور

بہاولپور پولیس نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ ١٢٤-اے (بغاوت) اور ٥٠٥ (عوامی فساد کو ہوا دینے والے بیانات) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

یہ ایف آئی آر سول لائنز پولیس اسٹیشن نے ٣ مئی ٢٠٢٣ کو علی سفیان کے خلاف درج کی جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن انجینئرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

اس کیس میں شکایت کنندہ پاکستان تحریک انصاف کا ایک عہدیدار ناصر تنویر ہے جس نے وائس پی کے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی ایف آئی آرز کروانے کا عادی ہے اور ماضی میں نواز شریف، شہباز شریف اور میر حاصل بزنجو کے خلاف بغاوت کے تین مقدمات درج کروا چکا ہے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق “ملزم نے فیس بک پوسٹ میں کہا کہ پاک فوج کمزور اور نااہل ہے۔ فیس بک پوسٹ میں کہا گیا کہ فوج آئندہ انتخابات کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنے سے قاصر ہے اور پھر بھی وہ بھارت کو حملے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ ایسی پوسٹیں نہ صرف بھارت کے حق میں جاتی ہیں بلکہ پاک فوج کی صلاحیتوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتی ہیں۔ ملزم علی سفیان نے دشمن کی سازش کے تحت پاک فوج کو چیلنج کیا ہے”۔

ملزم نے مقامی عدالت سے ١١ مئی ٢٠٢٣ تک حفاظتی ضمانت حاصل کر لی ہے۔

“دفعہ ١٢٤-اے پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے آگاہ نہیں”: پولیس

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ٣٠ مارچ ٢٠٢٣ کو تعزیرات پاکستان دفعہ ١٢٤-اے کو ختم کرتے ہوئے اسے آئین پاکستان کی خلاف ورزی قرار دیا۔

جسٹس کریم نے کہا کہ سیکشن ١٢٤-اے بنیادی طور پر نوآبادیاتی قانون ہے اور اس کی ابتدا نوآبادیاتی دور میں ہوتی ہے۔ بغاوت کا قانون برصغیر میں برطانوی راج کو مظبوط کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ “غداری کا تعلق جرائم کی ایسی قسم سے ہے جس کا مقصد صرف نوآبادیاتی آقاؤں کی طرف سے لوگوں کی آواز کو دبانا تھا”۔

لاہور ہائیکورٹ میں درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے ابو زر سلمان نیازی نے کہا کہ بہاولپور پولیس پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ ١٢٤-اے کے تحت مقدمہ درج نہیں کر سکتی کیونکہ یہ شق اب موجود نہیں ہے۔

ابو زر سلمان نیازی نے کہا، “ملزم ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کے لیے دائر کرے اور جج یقینی طور پر اسے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں منسوخ کر دے گا”۔

انہوں نے کہا کہ ملزم توہین عدالت کا مقدمہ بھی درج کر سکتا ہے کیونکہ پولیس قانونی طور پر ایسی ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار نہیں رکھتی تھی۔

شاید، پولیس دباؤ میں تھی یا وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے غافل تھی،” انہوں نے کہا۔”

وائس پی کے ڈاٹ نیٹ نے سول لائن پولیس کے عید ایچ او عامر س یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود دفعہ ١٢٤-اے کے تحت ایف آئی آر کیوں درج کی گئی، جس پر ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی محکمہ کی طرف اس حوالے سے کوئی گائیڈ لائنز جاری کی گی ہیں۔

واضح رہے کہ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق ١٩٧ کے تحت ریاست کے خلاف کے گے جرائم ( بغاوت، اکسانا وغیرہ) کی ایف آآئی آر صرف وفاقی یا صوبائی حکومت کا نامزد کوئی افسر ہی درج کروا سکتا ہے۔

ملزم کون ہے؟

ملزم علی سفیان ایک انجنیئر ہیں اور یونیورسٹی پروفیسر ہیں جنہوں نے برطانیہ سے پرسنل، موبائل اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

سفیان نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کو فون پر بتایا “میں ایک قانون کی پاسداری کرنے والا شہری ہوں اور ایک پروفیسر اور سرکاری ملازم ہونے کے ناطے جان بوجھ کر کسی ادارے کے خلاف لکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں نے فیس بک پر صرف ایک پوسٹ شیئر کی اور اپنی پوسٹ پر ایک لفظ بھی نہیں لکھا”۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہر ایک کو اپنی رائے کا حق ہے لیکن وہ خود کبھی بھی اس طرح کی بحث میں نہیں پڑتے۔  “میں اب بھی یونیورسٹی میں معمول کے مطابق پڑھا رہا ہوں۔ یہ قسمت کی ستم ظریفی تھی کہ ایف آئی آر درج ہونے کے کے اگلے دن، میں نے انسانی حقوق کے بارے میں ایک لیکچر دیا جس میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ میں بیان کردہ آزادی اظہار کی اہمیت بھی شامل ہے”۔

شکایت کنندہ کون ہے؟

ایف آئی آر پی ٹی آئی بہاولپور کے معروف رکن اور تنظیمی عہدے دار ناصر تنویر نے درج کروائی ہے۔ انہیں دسمبر ٢٠٢١ میں انصاف ویلفیئر ونگ بہاولپور کے صدر کا عہدہ دیا گیا، جس کا نوٹیفکیشن بھی وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کے پاس موجود ہے۔

تنویر نے کہا “میں نے ایف آئی آر درج کرائی کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ ایسے لوگوں کو سبق سکھانا میرا فرض ہے۔ کسی کو ہماری فوج پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میں نے پاک فوج کے خلاف بات کرنے پر نواز شریف، شہباز شریف اور میر حاصل بزنجو کے خلاف بغاوت کے تین مقدمات بھی درج کرواے تھے اور میں آئندہ بھی ایسا کرتا رہوں گا”۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایک پروفیسر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ کیوں درج کروایا، جب پی ٹی آئی ایک پالیسی کے طور پر، بغاوت کے مقدمات کے اندراج کے خلاف ہے اور خود کو قانون کا سب سے بڑا شکار سمجھتی ہے، تنویر نے کہا کہ ان کے لئے ملک سب سے پہلے آتا ہے۔

مقامی ذرائع نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ ناصر تنویر کی اچھی شہرت نہیں ہے، اور وہ بلیک میلنگ کے مقاصد کے لیے لوگوں پر جھوٹے مقدمات درج کرنے کے لیے بدنام ہے۔

جب ان الزامات کے بارے میں پوچھا گیا تو تنویر نے ایسے دعوؤں کی تردید کی اور کہا کہ “وہ ایک سچا محب وطن ہے جو بغیر کسی خوف اور حمایت کے سماجی مسائل کو اجاگر کرتا ہے”۔

تاہم، پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے صدر عون عباس بپی نے خود کو اور پارٹی کو شکایت کنندہ سے الگ کر لیا۔ بپی نے کہا کہ پی ٹی آئی بہاولپور میں اس آدمی کو کوئی نہیں جانتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انصاف ویلفیئر ونگ (جس کے تنویر صدر تھے) کو ایک سال پہلے ہی تحلیل کر دیا گیا تھا، اور اسے کسی اور عہدے کے لیے نامزد نہیں کیا گیا تھا۔

تاہم ناصر تنویر کا دعویٰ ہے کہ وہ اب بھی پی ٹی آئی بہاولپور کے انصاف ویلفیئر ونگ کے عہدیدار ہیں اور ان کی تنظیم کو کبھی تحلیل نہیں کیا گیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here