مئی ،11 ٢٠٢٣

تحریر: احمد سعید


لاہور

آئی جی پنجاب پولیس عثمان انور کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے مشتعل کارکنان نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان جگہوں پر حملے کیے جن کو ماضی میں بلوچ لبریشن آرمی اور تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا. ان کا کہنا تھا حملے ہر اس جگہ پر کیے جا رہے ہیں جس سے دشمن کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے احتجاج کی آڑ میں پولیس کے افسران اور جوانوں پر بھی حملے کے جس سے کئی افراد زخمی ہوئے جب کہ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور علی ناصر رضوی کی ایک آنکھ بھی زخمی ہو گی ہے. آئی پنجاب کا کہنا تھا کہ مظاہرین سے لڑتے ہوئے ڈی پی او میانوالی بھی زخمی ہوئے۔

پنجاب پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تین دنوں میں اب تک 149 پولیس ہوئے ہیں جن میں سے 63 کا تعلق لاہور سے ہے۔

پولیس کے مطابق پر تشدد مظاہرین نے 78 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا جن میں ستر سرکاری گاڑیاں تھی. پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کی 179 ایف آئی آرز درج کی گی ہیں جب کہ سولہ سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ پولیس کو گولی چلانی آتی ہے مگر وہ صرف اس لئے تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے کیوں کہ پولیس مجرموں سے پر گولی چلاتی ہے نہ کہ ایسے لوگوں پر گولی چلانے کے لئے جن کے خیالات خراب ہو چکے ہوں۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ پولیس نے اب تک جن لوگوں کو گرفتار کیا ہے ان کے خلاف ویڈیو ثبوت موجود ہیں. کچھ لوگوں کی شکلیں سیف سٹی کے کیمروں نے محفوظ کر لی جب کہ بعض افراد نے لوٹ مار کی ویڈیوز اپلوڈ کر کے خود ہی فیس بک اور ٹک ٹاک پر وائرل کر دی تھی. ان کا کہنا تھا کہ پولیس ان تمام افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلائیں جائیں گے اور عدالتوں کو سب ثبوت پیش کئے جائیں گے۔

انہوں نے والدین سے گزارش کی کہ وہ اپنے بچوں کو پر تشدد احتجاج سے روکیں کیوں کہ گرفتار لوگوں کے کرکٹر سرٹیفکیٹ خراب ہوں گے اور ان کو ویزا اور نوکری ملنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here