مئی ،24 ٢٠٢٣

تحریر: احمد سعید


لاہور

پاکستان میں نو مئی کے پر تشدد واقعات اور ہنگاموں میں ملوث افراد کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کرنے کے حوالے سے بحث شدت اختیار کر گی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ جن لوگوں نے آرمی کی تنصیبات پر حملہ کیا تھا ان کا مقدمہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف ماہرین قانون کی رائے ہے کہ حکومت اگر نو مئی کے واقعات کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کرنا چاہتی ہے تو اسے آئین اور قانون میں تبدیلی کرنا پڑے گی جیسے کہ دو  ہزار پندرہ میں دہشت گردوں کے فوجی  ٹرائل کے لئے آئین میں اکسویں ترمیم کی گی تھی۔
لیکن اس بات سے قطع نظر پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس میں فوجی عدالتوں کو چند صورتوں میں سویلین افراد کے ٹرائل کی اجازت دی گی ہے  اور ماضی قریب میں ایسے ٹرائل کر کے لوگوں کو پھانسی جیسی  سخت سزائیں دی جا چکی ہیں۔
اگر ہم جنوبی ایشیا میں نظر ڈالیں تو  ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان خطے کا واحد ملک ہے جہاں ملٹری کورٹس سویلین افراد کا ٹرائل کر سکتی ہیں اور کر رہی ہیں۔
:انڈیا
انڈیا اور پاکستان کا آرمی ایکٹ بہت حد تک ایک جیسے ہیں کیوں کہ دونوں ممالک نے آزادی کے بعد 1911 کے انڈین آرمی ایکٹ کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ نافذ کر دیا تھا اور اصل ایکٹ میں سویلین افراد کے فوجی ٹرائل کی اجازت نہیں تھی تاہم پاکستان نے 1967 میں اپنے آرمی ایکٹ میں تبدیلیاں کر کے سویلین کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی راہ ہموار کر دی۔
انڈیا کے آرمی ایکٹ میں سویلین افراد کے فوجی ٹرائل کی شق  موجود نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا ہے. انڈیا کے کچھ خاص قوانین انڈین آرمی کو سورش زدہ علاقوں میں لوگوں کو گرفتار کرنے کی اجازت دیتے ہیں مگر ایسے افراد کا ٹرائل سویلین عدالتوں میں ہی ہوتا ہے۔
دہشت گردی میں ملوث  افراد کا ٹرائل بھی انڈیا میں سویلین عدالتوں میں ہوتا ہے اور ممبئی حملوں میں ملزم  اجمل قصاب کو سزا بھی عام عدالتوں کے ذریعے ہی دی گی تھی۔
:بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے پاکستان سے آزادی کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کو لاگو کر لیا جسے اب بنگلہ دیش آرمی ایکٹ کہا جاتا ہے۔ چونکہ پاکستان نے  1967 میں اپنے آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے  سویلین افراد کے ملٹری ٹرائل کی اجازت دے دی تھی اس لئے بنگلہ دیش کے آرمی ایکٹ میں بھی سویلین افراد کے ٹرائل کی شق  موجود ہے۔ جب جنرل ضیاء الرحمان نے 1975 شیخ مجیب کی حکومت کو برطرف کر کے مارشل لا لگایا تو انہوں نے کچھ سویلین افراد بشمول کم عمر افراد  کے ٹرائل ملٹری کورٹ میں کیے تھے۔لیکن اس کے بعد ماضی قریب میں بنگلہ دیش میں سویلین افراد کے فوجی ٹرائل کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ میں 1975 کے مارشل لاء میں سویلین افراد کو ملٹری کورٹ کی جانب سے دی گی سزاؤں کے خلاف ایک رٹ 2019 میں دائر کی گی جو اب بھی زیر سماعت ہیں اور عدالت نے ان سزاؤں کو کالعدم قرار دینے کا عندیہ دے رکھا ہے۔
یاد رہے کہ بگلادیش نے اپنے آرمی ایکٹ کے تحت ایسے کئی سو سینئر فوجی افسران کا ٹرائل کر کے سزائیں دی ہیں جنہوں نے مارشل لاء لگانے کی کوشش کی یا فوج میں سول حکومت کے خلاف بغاوت کے جذبے کو اکسایا۔
:سری لنکا
انڈیا کی طرح سری لنکا کے آرمی ایکٹ میں سویلین افراد کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کی گنجائش موجود نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کبھی ہوا ہے۔ واضح رہے کہ سری لنکا کئی برس تک سول  وار کا شکار رہا اور وہاں پر دہشت گردی کے کئی واقعات پیش آے۔
:بھوٹان
بھوٹان کے آرمی ایکٹ میں بھی سویلین افراد کے فوجی ٹرائل کی شق مجود نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کبھی ہوا ہے۔  تاہم بھوٹان کے آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت فوجیوں کا سول اور فوجداری دونوں معاملات میں ٹرائل کر سکتی ہے۔
: نیپال
نیپال کے آرمی ایکٹ 2006 کے تحت ملٹری کورٹس کسی سویلین کا ٹرائل نہیں کر سکتی۔
:مالدیپ
مالدیپ کے آرمی ایکٹ میں بھی سویلین افراد کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی گنجاش موجود نہیں ہے  ۔
اگر ہم خطے  کے دیگر ممالک پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ملکوں میں اب بھی سویلین افراد کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے بعد سزائیں دی جا رہی ہیں یا ماضی قریب میں دی گی تھی۔ لیکن یہ ایسے ممالک ہیں جن میں یا تو فوجی حکومتیں قائم رہی ہیں یا ابھی بھی موجود ہیں اور عدالتوں نے ایسے افراد کو سزائیں دی جو جمہوریت کے لئے آواز اٹھاتے ہیں یا تھے  ۔
:میانمار
میانمار میں فوجی عدالتوں میں  سویلین افراد کا ٹرائل ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور اس وقت بھی یہ سلسلہ جاری ہے. ملک کے آرمی ایکٹ میں صدر کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کر سکے۔ 2021 کے مارشل لاء کے بعد کی ملٹری قیادت نے ملک میں فوجی عدالتیں قائم کی تھی اور  ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان فوجی عدالتوں نے  اب تک کئی ہزار افراد کو سزائیں  سنا چکی ہیں۔
:مصر
مصر میں بھی اس وقت ایک فوجی حکومت قائم ہے اور یہاں پر 2013 کے بعد سے اب تک تقریباً دس ہزار افراد کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو چکا ہے۔ ان میں کئی  افراد کو سزاۓ موت بھی سنائی گی گی تھی جب کہ کچھ کی سزاۓ موت پر عمل ہو بھی چکا ہے۔
واضح رہے کہ مصری آئین کی شق دو سو چار کے تحت کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل صرف اس وقت ہو سکتا ہے اگر اس نے کسی فوجی اہلکار یا عمارت پر حملہ کیا ہو تاہم مصر میں فوجی عدالتوں نے کئی سو ایسے افراد بالخصو ص یونی ورسٹی کے استاتذہ اور طلباء کو سزائیں سنائی جنہوں نے فوجی حکومت کے جمہوریت دشمن اقدامات پر تنقید کی تھی۔
:لبنان
لبنان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر قانون میں یہ اجازت دی گی ہے کہ وہ چند مخصوص حالات میں سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کر سکیں۔ لیکن لبنان میں پچھلے چند سالوں میں کئی ایسے سویلینز کا افراد ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو چکا ہے جن پر الزام تھا کہ انہوں نے لبنان کی ساکھ کو عالمی سطح پر متاثر کیا ہے۔
:بحرین
بحرین میں بھی 2017 میں آئین میں ترمیم کر کے فوجی عدالتوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ایسے سویلینز کا ٹرائل کر سکیں جو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہوں لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق اس ترمیم کا اصل مقصد بحرین میں آزادی اظہار کو کچلنا ہے۔ واضح رہے کہ دو ہزار گیارہ میں جب بحرین میں جمہوریت کے حق میں مظاہرے شروع ہوئے تھے تو حکومت نے ایمرجنسی لگا کر فوجی عدالتوں کو سویلینز کے ٹرائل کا حق دے دیا تھا اور اس کے بعد فوجی عدالتوں نے تین سو سیاسی قیدیوں کو سزا سنائی تھی۔
جہاں چند ممالک فوجی عدالتوں کے دائر کار میں اضافہ کر کے سویلین افراد کو سزائیں’سنا رہے ہیں وہاں پر چند ممالک ایسے بھی ہیں جہاں پر فوجی عدالتوں کو ختم کر دیا گیا اور وہاں پر فوجی افراد کا ٹرائل بھی ریگولر عدالتوں میں کیا جاتا ہے۔ سولواکیہ، لٹویا اور چیک ریپبلک وہ ممالک ہیں جنہوں نے فوجی عدالتوں کو بند کر دیا ہے جب کہ ترکی  میں  بھی اس حوالے سے اقدامت اٹھاۓ جا رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ ترکی میں لمبے عرصے تک فوجی حکومت قائم رہی تھی لیکن دو ہزار نو میں آئینی  ترمیم کے ذریعے فوجی حکام کی سول عدالتوں میں ٹرائل کی راہ ہموار کی گی۔
اس کے علاوہ فرانس، جرمنی، ڈنمارک، سولوینا، ایسٹونیا، سویڈن، ناروے، پرتگال اور نیدر لینڈ وہ ممالک ہیں جہاں پر صرف جنگ کے دوران ہی فوجی عدالتیں قائم ہو سکتی اور ان میں بھی صرف فوجی اہلکاروں کا ٹرائل ہو سکتا ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here