جولائی 12, 2023
تحریر: مریم مثال
لاہور
منڈی بہاؤالدین میں بارہ سالہ لڑکے کو اس کے نانا نے مدرسے میں اس حالت میں پایا جب قاری طفیل نامی شخص بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہا تھا۔ بعد ازاں مدرسہ کے کئی اضافی طلباء سامنے آئے اور قاری پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا۔
بارہ سالہ بچہ بلال* اپنے گھر کے قریب واقع مدرسے سے حفظ قرآن کر رہا تھا۔ چار جولائی کو بلال کے مدرسے کے اوقات ختم ہونے کے بعد اس کے نانا، محمد اعظم، جو اپنی بیٹی سے ملنے آے ہوے تھے، اسے لینے پہنچے۔
اعظم کے مطابق مسجد میں داخل ہوتے ہی انہوں نے دیکھا کہ قاری طفیل بچے کے ساتھ زیادتی کر رہا تھا۔ اعظم کو دیکھ کر ملزم گھبرا گیا اور بچے کو مسجد سے باہر بھیج دیا۔
بچے کے نانا نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ زیادتی کے وقت مسجد میں دیگر لوگ بھی موجود تھے۔
واقعہ کے بعد اعظم نے منڈی بہاؤالدین کے مقامی تھانا پھالیہ میں شکایت درج کروائی۔
بلال کے والد، قیصر فاروق، نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بچے کا کہنا ہے کہ طفیل نے اس سے پہلے بھی پانچ بار زیادتی کا نشانہ بنایا۔
طفیل پچھلے نو مہینوں سے امام مسجد اور قاری کے فرائض نبھا رہا تھا۔
مسجد کے سینئر ایڈمنسٹریٹر، غلام رسول، نے کہا کہ “جب ہم نے طفیل سے سوال کیا تو اس نے کہا کہ اس نے صرف بچوں کو مشت زنی کرنے کو کہا تھا۔”
’’اگر ہمیں ذرا سا بھی اندازہ ہوتا تو ہم نماز میں اس کے پیچھے نہ کھڑے ہوتے۔ وہ پچھلے نو ماہ سے نماز پڑھا رہا تھا،‘‘ غلام رسول نے غصے سے کہا۔
مسجد میں ایک نمازی، علی بہادر، نے بتایا کہ “ہمیں اب معلوم ہوا ہے کہ اسے کچھ دیگر مساجد سے بھی بچوں سے زیادتی کے الزام پرنکالا گیا تھا۔”
بہادر نے مزید کہا کہ مسجد انتظامیہ ان سابقہ واقعات سے بے خبر تھی، لیکن اب انہیں دوسرے مساجد سے بھی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
قاری طفیل کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کے قوانین کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کروا دی گئی۔
ایف آئی آر کے بعد قاری طفیل کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ اس وقت پھالیہ پولیس کی تحویل میں ہے۔
واقعے سے چند روز قبل بلال نے اپنی والدہ سے شکایت کی تھی کہ اس کے نجی حصے میں درد ہے لیکن اس کی شکایت کو زیادہ اہمیت نہیں دیا گیا۔
بعد ازاں جب بلال مدرسہ گیا تو اس نے شکایت دہرائی تو طفیل اسے مقامی دواخانہ لے گیا اور والدین کی اجازت کے بغیر اسے درد کے لیے ادویات دلوا دیں۔
بلال کے والد نے بتایا کہ اس کی عمر صرف بارہ سال ہے، وہ ہمیں کچھ بتانے سے بھی ڈرتا تھا۔ مگر اب وہ کہہ رہا ہے کہ قاری نے اسے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ہمیں کچھ بتایا تو وہ اسے پانی کے موٹے پائپ سے مارے گا۔
بلال کے والد نے مزید بتایا کہ چار جولائی کو بلال مدرسہ جاتے ہوئے اتنا خوفزدہ تھا کہ اس نے یہ سوچ کر اپنے بیگ میں چاقو رکھا کہ وہ قاری طفیل کا قتل کر دیگا۔
دیگر طلباء نے مدرسہ واپس آنے سے انکار کر دیا ہے اور طفیل کے رویے کی شکایت کر رہے ہیں۔ بچوں کا دعوی ہے کے طفیل انہیں جنسی اور جسمانی طور پر زیادتی کا نشانہ بناتا تھا لیکن انہوں نے اس کے خلاف کوئی باقاعدہ شکایت درج نہیں کرائی ہے۔
مدرسے کے اوقات صبح آٹھ بجے سے بارہ بجے تک تھے، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ بلال مقررہ وقت سے دیر سے گھر آتا تھا۔ بلال اپنے بھائی کے ساتھ وہاں جایا کرتا تھا جس کی عمر صرف دس سال ہے۔
بلال کے والدین کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ چھوٹے بھائی نے جنسی ہراسانی کی شکایت نہیں کی۔
پولیس رپورٹ کے بعد بلال کو فوری طبی امداد فراہم کی گئی۔ پولیس کی جانب سے میڈیکل چیک اپ کے لیے بھی لے جایا گیا جہاں سے رپورٹس فرانزک کے لیے بھیج دی گئیں ہیں۔
قاری طفیل کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے بعد مسجد انتظامیہ نے ملزم کو اس کے عہدے سے برطرف کر دیا اور مسجد کے ساتھ الاٹڈ مکان خالی کروا لیا۔
فاروق نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ انہیں اب مقامی لوگوں اور مسجد انتظامیہ سے تعاون مل رہا ہے۔
وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کی جانب سے پھالیہ پولیس اسٹیشن سے بات کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن کالز کا جواب نہیں دیا گیا۔
*بچے کی شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کر دیا گیا ہے