جولائی  21, 2023

تحریر: احمد سعید


لاہور

آج کل سب کی زبانوں پر ایک ہی سوال ہے کہ کیا سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا   امریکی سائفر کے معاملے پر دیا گیا  ایک سو چونسٹھ کا بیان عمران خان کی گرفتاری کی وجہ بن سکتی ہے۔
واضح رہے کہ  اعظم خان  پندرہ جون سے لاپتا تھے اور اس حوالے سے ان کی فیملی نے ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر بھی درج کروائی تھی۔
اگر ماضی کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مقبول سیاسی لیڈروں کو سزا اور نا اہل کرنے کے لئے اعلی سرکاری حکام اور افسران کو ڈرا دھمکا کر وادا معاف گواہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اس حوالے سے سب سے اہم نام مسعود محمود کا ہے جو پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب  محمد احمد  خان قصوری کے قتل کے مقدمہ میں وعدہ معاف گواہ بنے تھے۔
  اس مقدمے میں بھٹو کو سزا دلوانے کے لئے فیڈرل سیکورٹی فورس کے سابق سربراہ مسعود محمود  نےدو مرتبہ ایک سو چونسٹھ کا بیان ریکارڈ کروایا۔
مسعود محمود نے دو دفعہ اپنا  بیان اس لئے ریکارڈ کروایا تھا کیوں کہ انہوں نے اپنے پہلے بیان، جو کہ راولپنڈی کے جوڈیشل  مجسٹریٹ غضنفر ضیاء کے سامنے دیا گیا تھا، اس میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کی سازش میں ملوث قرار نہیں دیا تھا۔
مسعود محمود نے دوسرا بیان چند روز بعد لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروایا تھا جس میں انہوں نے بھٹو کو قتل کی سازش کا مرکزی ملزم قرار دیا اور بعد ازاں مسعود کے بیان کی وجہ سے بھٹو کو  ایک متنازعہ فیصلے میں  سزاۓ موت دے دی گی تھی۔
واضح رہے کہ  مسعود محمود نے یہ بیان پولیس حراست میں کئی دن گزرانے کے بعد دیا تھا اور اس بیان کے بعد مسعود محمود کو معافی دے دی گی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی طرح نواز شریف بھی وعدہ معاف گواہ کے ہاتھوں سزا کاٹ چکے ہیں۔
جب اکتوبر ١٩٩٩ میں جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء نافذ کیا تو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ کیس بنایا گیا. اس کیس میں نواز شریف کے خلاف اس وقت کے ڈی جی سول ایوی ایشن امین اللہ  چودھری نےکئی ہفتوں کی قید کے بعد وعدہ معاف گواہ بننے کا فیصلہ کر لیا۔
 امین اللہ  چودھری نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے ایک سو چونسٹھ کے بیان میں یہ اعتراف کیا کہ ان کو نواز شریف نے جنرل مشرف کا طیارہ کراچی میں لینڈ نہ کرنے دینے کا حکم دیا تھا. اس بیان کے ریکارڈ ہونے کے چند دن بعد اس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل مشرف نے انھیں معافی دے دی تھی۔
 اس بیان کی روشنی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نواز شریف کو چودہ سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم سپریم کورٹ نے اس سزا کو ٢٠٠٩ میں  عدم شواہد کی بنا پر ختم کر دیا تھا۔
١٩٩٩ کے مارشل لاء  کے بعد نواز شیرف کے خلاف کرپشن کے مقدمات بھی قائم کے گے.  ان میں سے ایک مقدمہ حدیبیہ پیپر ملز کا بھی تھا اور  یہ مقدمہ نواز شریف کےسمدھی  اور وزیر خزانہ اسحاق دار کے ایک سو چونسٹھ کے اعترافی بیان کی روشنی میں بنایا گیا تھا۔
یہ اعترافی بیان بھی اسحاق ڈار نے آٹھ مہینے کی قید کے بعد کے ریکارڈ کروایا تھا اور یہ اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کی ہدایت پر کئی ملین ڈالرز ملک سے بھر بھجواے تھے . یہ  بیان ریکارڈ ہونے کے چند دن بعد اس وقت کے چیئرمین نیب نے اسحاق دار کو معافی دے دی تھی۔
تاہم بعد میں اسحاق ڈار نے یہ کہ کر اپنا بیان واپس لے لیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ  انہوں نے ایک سو چونسٹھ کا بیان شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کے بعد دباؤ میں دیا تھا اور ایسا کرنے سے پہلے نواز شریف سے مشورہ بھی کیا تھا۔
اب دیکھنا ہوگا کہ کیا اعظم خان بھی مستقبل میں اسحاق ڈار کی طرح اپنا اعترافی بیان واپس لیں گے یا نہیں۔
اعظم خان کی طرف سے ریکارڈ کراے گے ایک سو چونسٹھ کے بیان کی نہ تو مصدقہ کاپی سامنے آئی ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ بیان کس شہر اور مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ ا عظم خان خود بھی منظر عام غائب ہیں اگر چہ وہ پینتیس دن لاپتا رہنے کے بعد گھر تو پہنچ گے ہیں لیکن وہ اور ان کی اہلخانہ ان کی گمشدگی اور گواہی کے حوالے سے بات کرنے کو آمادہ نہیں ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق اعظم خان کا بیان عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ کا بیان لگتا ہے اور اب چیرمین تحریک انصاف کے خلاف  آفیشل ایکٹ کے تحت کاروائی ہو سکتی ہے اور اس میں ان کو سزا ہونے کے امکانات بھی کافی زیادہ ہیں کیونکہ ،ماضی میں سابق وزرا عظم کو سزا دی جا چکی ہے۔
یعنی وقت بدل گیا مگر مقبول لیڈروں کو سیاسی میدان سے نکلانے کا طریقہ وہی پرانا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here