جولائی  19, 2023

سٹاف رپورٹ


اسلام آباد/لاہور

نومئی واقعے کے بعد اب تک درج کیے جانے والے دو سو مقمات میں سے صرف بیس مقدمات کا ٹرائل آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی عدالتوں میں ہو گا۔

یہ بیان پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بروز پیر، ‘آج’ نیوز کے شو ‘اسپاٹ لائٹ’ کے دوران انٹرویو دیتے ہوئے دیا۔

بروز پیرہی وزیر داخلہ  نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے نو مئی کے واقعات کو ملک کو کمزور کرنے کی پ ہلے تیار شدہ بین الاقوامی سازش قرار دیا تھا جس کا مقصد پاکستان کی مسلح افواج اور ملک کی داخلی سلامتی کو کمزور کرنا تھا۔

آرمی ایکٹ کے عام شہریوں پر لاگو ہونے کے محدود دائرہ کار کے سوال پر، ثناء اللہ نے کہا کہ جو بھی کسی دفاعی تنصیب پر حملہ کرتا ہے یا حساس اور ممنوعہ علاقوں میں جارحیت کرتا ہے، اس کے خلاف ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے، چاہے وہ وردی میں ہو یا عام شہری۔

انہوں نے وضاحت کی کہ طریقہ کار کی علیحدگی کی وجہ سے شناخت شدہ فسادیوں کے خلاف درج کی گئی کسی بھی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں آرمی ایکٹ کے تحت دفعات شامل نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ، “ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعات شامل کی گئی ہیں، جبکہ فوج اپنے طریقہ کار کے مطابق [آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں] کی تحقیقات کرے گی،” انہوں نے مزید کہا کہ دو سو کے قریب ملزمان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) اور اے ٹی اے کی متعلقہ شقیں کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر نے نشاندہی کی کہ بیس یا اس سے زیادہ فسادی ممنوعہ احاطے میں داخل ہوئے اور یہ آرمی ایکٹ کے تحت ان کے ٹرائل کی بنیاد ہیں۔

“ان یبس افراد کا الگ چالان جاری کیا جائے گا جس کے بعد انہیں فوجی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور اسی دائرہ اختیار میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ بقیہ ایک سو اسی پر اے ٹی اے کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا،” انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں (اے ٹی سی) میں کی جائے گی۔

اس سے قبل سولہ جولائی کو نگراں وزیر اطلاعات عامر میر نے انکشاف کیا تھا کہ نومئی کو گرفتار اٹھاون ملزمان کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ سینکڑوں دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف سول عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

سینئر وکیل شاہ خاور کے مطابق فوجی افسران کی تمام سرکاری رہائش گاہیں ممنوعہ علاقوں کی تعریف میں آتی ہیں۔ اسی طرح، ایسی جائیدادوں پر تجاوز کرنے والوں کے خلاف پی پی سی کی ان سیکشنز کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے جن کے لیے آرمی ایکٹ یا کسی دوسرے قانون کے تحت ٹرائل کا حق فوجی عدالتوں کو دیا گیا ہے۔

فوجی عدالتی نظام کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزی

فوجی عدالتی نظام کے تحت، سویلین مدعا علیہان اپنے قانونی مشیر کی خدمات حاصل نہیں کر سکتے اور انہیں اپیل کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ فیصلے صرف اعترافات پر جاری کیے جاسکتے ہیں، جب کہ فوجی عدالتوں میں اعترافات حاصل کرنے کا طریقہ معلوم نہیں ہے۔ میڈیا کو ٹرائل کے مشاہدے اور رپورٹنگ سے روک دیا گیا ہے، یہ بجا ہے کہ مقدمے کی سماعت مکمل رازداری سے کی جاتی ہے۔

تین رکنی بنچ فوجی عدالتوں کی صدارت کرتا ہے جس میں کرنل کے عہدے کے برابر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل اور دو میجر رینک کے افسران شامل ہوتے ہیں۔ ججوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی سروس کے دوران فوجی قانون کا امتحان پاس کر لیں، جس کے لیے قانون کی عام ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔ مزید برآں، فوجی عدالتوں کے جج جاری کیے گئے فیصلوں کے لیے کوئی دلیل فراہم کرنے کے پابند نہیں ہیں۔

شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کا آرٹیکل ۱۴، جس کی پاکستان نے دو ہزار دس میں توثیق کی، ایک مجاز، آزاد اور غیر جانبدار ٹریبونل کے ذریعے بروقت ٹرائل کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔   ہیومن رائٹس واچ( ایچ آرڈبل یو) کی دو ہزار سترہ کی پریس ریلیز کے مطابق، یہ معاہدہ بنیادی منصفانہ ٹرائل کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی ذمہ داریوں کو فوجی عدالتوں کے وجود اور اختیار سے روکتا ہے۔

پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جس نے فوجی عدالتوں کو غیر فوجی جرائم بشمول دہشت گردی سے متعلق جرائم کے لیے عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کی اجازت دی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here