جولائی 25, 2023
تحریر: احمد سعید
لاہور
سینئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یو جے) کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا ترمیمی بل کا مسودہ موجودہ حالت میں کبھی صحافتی تنظیموں کے سامنے نہیں رکھا گیا تھا۔
آج نیوز کے پروگرام سپاٹ لائٹ میں میزبان منیزۓ جہانگیر سے گفتگو کرتے ہوئے ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ پی ایف یو جے موجودہ شکل میں اس بل کو مسترد کر دے گی کیوں کہ اس کے قانون بننے سے آزادی اظہار رائے پر بندشوں میں اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ ناصر زیدی صحافیوں کی اس جائنٹ ایکشن کمیٹی کے ممبر تھے جس کے ساتھ حکومت نے اس بل کو لے کر مشاوت کی تھی۔
نیا بل کیا ہے؟
حکومت کی طرف سے پیش کیے گے بل میں پیمرا قانون میں اٹھارہ تبدیلیاں کی گئی ہیں. کچھ شقوں کو ختم یا تبدیل کیا گیا ہے جبکہ چار نئی شقیں بھی قانون میں شامل کی گی ہیں۔
حکومت کے مطابق اس بل کو لانے کا بنیادی مقصد صحافیوں کی تنخواؤں اور کم از کم اجرت کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانا ہے۔ اس حوالے سے بل میں دو نئی شقوں 20 (A) اور 20 (B) کو شامل کیا گیا ہے جس کے تحت اگر کوئی میڈیا کا ادارہ اپنے ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی نہیں کرتا تو پھر ایسے ادارے کو وفاقی یا صوبائی حکومتی اداروں کی جانب سے اشتہار نہیں دے جائیں گے۔
ناصر زیدی کے مطابق پاکستان میں لیبر لاء مجود ہے جس کے تحت ہر ملازم کو مہینے کے پہلے ہفتے میں تنخواہ ادا کرنا لازم ہے اور ایک قانون کے ہوتے ہوئے دوسرے قنون کو لانے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت الیکٹرانک میڈیا کے ورکرز کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے تو پھر وہ ان کے سروس کنڈیشن ایکٹ لے کر آے اور اس حوالے سے صحافتی تنظیمیں مشاورت کے لئے بھی تیار ہیں اور قانون کا مسودہ بھی بنا کر دے سکتی ہیں ۔
ڈس انفارمیشن کی تشریح
اس بل میں حکومت نے غلط انفارمیشن کی روک تھام کے لئے بھی قانون میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اس حوالے سے مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تشریح بھی کی گی ہے۔ اس بل کے تحت ڈس انفارمیشن سے مراد ہوگا ایسی تصدیق شدہ غلط، گمراہ کن، یا من گھڑت معلومات جسے جان بوجھ کر کسی شخض کو ہراساں کرنے یا اس کے سیاسی، ذاتی، یا مالی مفاد کو نقصان پہنچانے کے لئے شائع کرنا۔
ناصر زیدی کے مطابق اس طرح کی تشریح سے مسائل پیدا ہوں گے اور یہ دراصل میڈیا کو دبانے کا ایک انتہائی جدید طریقہ کار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا تعین کون اور کیسے کرے گا کہ شائع کی گی خبر مصدقہ ہے یا نہیں۔
ناصر زیدی کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے جن ممالک میں جمہوریت کمزور ہوتی ہیں وہاں پر ہی ڈس انفارمیشن زیادہ ہوتی ہے اور ہمیشہ حکومتیں فیک نیوز پھیلاتی ہیں اور ایسے معاشروں میں حکومت بھی فیک نیوز کی بنیاد پر بنتی ہیں۔