2023 ,12اگست

تحریر: شوکت کورائی


کراچی

پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے دن پر کراچی میں اقلیتی کمیونٹی کی جانب سے مائینارٹی مارچ کا انعقاد کیا گیا، مارچ کے شرکاء فیرئر حال میں اکٹھے ہوئے اور بعد میں شہرکے مختلف راستوں پر معروف آرٹسٹ شیما کرمانی کی سربراہی میں مارچ کیا۔

، حکومت پاکستان کی جانب سے 2009 میں مذہبی اقلیتوں کا دن منانے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن کراچی میں یہ پہلی بار مارچ کیا گیا، مارچ میں رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار سمیت میئر کراچی مرتظی وہاب، ذولفقار بھٹو جونیئر، سیاسی، سماجی، مذہبی اقلیتوں، انسانی حقوق کے کارکنان، خواتین اور بچوں سمیت مسلمز اور دیگر مزاہب سے تعلق رکھنے والوں نے بھی شرکت کی۔

 فرئیر ہال میں دوران تقریب تقاریر کی گئیں اور آرٹ کے ستاروں نے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔

 مارچ کے شرکاء کے مطالبہ کیا کہ جبری مذہب تبدیلی کو روکنے کے لئے قانون سازی کی جائے، اغوا، جنسی زیادتی کے خاتمے سمیت توہین مذہب کے غلط استعمال کو روکنے، اقلیتی اور اکثریتی نظام قانون ختم کر کے تمام مذہاب سے تعلق رکھنے والوں کو برابری کی بنیاد پر شہری ہونے کا درجہ دیا جائے، شرکاء نے پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔

مارچ کی سربراہ معروٖف آرٹسٹ شیمار کرمانی کا کہنا تھا کہ 75 سال گذرنے کے باوجود آج بھی مذہبی اقلیتیں اپنے اور اپنے بچوں کا تحفظ مانگ رہی ہیں یہ سوال ریاست سے ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ دینے میں کیوں ناکام رہی ہے

“ہم برابری کی مانگ کر رہے ہیں۔ “

فریئر حال میں دوران تقریب ذولفقار بھٹو جونیئر نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ متحد پاکستان کے خواہش رکھتے ہیں وہ سب کو اس پرچم کے سائے تلے دیکھنا چاہتے ہیں

سابق رکن قومی ڈاکٹر رمیش کمار نے بھی مارچ میں شرکت کی، ان کا کہنا تھا کہ مذہبی اقلیتیں جس مسائل کا شکار ہیں اس سے دنیا کو منفی پیغام جا رہا ہے ریاست کو چاہیے کہ جو بھی جائز مطالبات ہیں انھیں فوری طور حل کرے،

توہین مذہب کے الزام میں گرفتار پروفیسر نوتن لعل کے رشتہ داروں نے بھی مارچ میں شرکت کی، نوتن لعل کے چچا زاد بھائی اور ایکٹیوسٹ مہیش کمار کا کہنا ہے کہ چار برس سے نوتن لعل جیل میں ہے کوئی جج ان کی درخواست سننے کو تیار نھیں ہے، وہ توہین مذہب قانون کے خاتمے کا مطالبہ نھیں کرتے لیکن اس قانون کا جو غلط استعمال ہو رہا ہے اسے روکا جائے

ضلع گھوٹکی کے تحصیل میرپور ماتھیلو سے 2012 کے دوران جبری مذہب تبدیلی کا شکار رنکل کماری کی تصاویر اٹھا کر مارچ میں ان کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا

 ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن ڈاکٹر برما لعل  کا کہنا ہے کہ رنکل کماری کو دس برس سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے، لیکن اس کا پتا نھیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے، ان کے گھر والے آج بھی ان کی واپس کے لئے ترس رہے ہیں

ہویمن رائیٹس ایکٹوسٹ سیما مہیشوری کا کہنا ہے کہ اقلیتی برادری کا دن تو منایا جا رہا ہے لیکن معاشرے سے متعصب رویہ کے خاتمے اور ہماری بیٹیوں کو تحفظ فراہمی کی ضرورت ہے

مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ ریاست ایسے اقدامات کرے جس سے مذہبی اقلیتوں میں خوف ختم ہو جائے، انھیں ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ ہو نہ جائے

مارچ کے دوران جبری مذہب تبدیلی روکنے، اغوا، توہین مذہب کا غلط استعمال سمیت اقلیتی اور اکثریتی کے الفاظ ختم کر کے تمام شہریوں کو مذہبی تفریق کے بغیر حقوق دینے کے نعرے لگائے گئے، فرئیر ہال سمیت دوران مارچ کے فول پروف سیکیورٹی کے انتطامات کئے گئے تھے،

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here