ستمبر 2, 2023
مریم مثال
لاہور
ڈیرا غازی خان کے علاقے راجن پورکے قبائلی علاقے میں نوجوان خاتون، زرناز، کو غیرت کے نام پر شوہر اور اس کے دو بھائیوں نے زندہ سنگسار کر کے قتل کر دیا۔
مقتولہ کے بھائی کی طرف سے درج ایف آئی آر کے مطابق زرناز کو پتھر مارے گئے اور وہ زخموں کی تاب نا لا سکی۔
“اس نے کچھ غلط نہیں کیا، اب وہ اس کے کردار کے بارے میں کہانیاں بنا رہے ہیں،”
متاثرہ کے چچا اللہ داد نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا۔
واقعہ کی ایف آئی آر بارڈر ملٹری پولیس (بی ایم پی) کے تحت تھانہ ماڑی بی ایم پی میں درج کی گئی ہے، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (قتل)، 148 (مہلک ہتھیار سے لیس فسادات)، 149 (غیر قانونی اسمبلی) اور 311 (فساد فی العرض) شامل ہیں۔
ملزم کے خاندان کی جانب سے مختلف بیان سامنے آیا ہے جس کے مطابق زرناز کے توصیف نامی شخص سے دوستانہ تعلقات تھے۔
بگو (ملزم) کے خاندان کے مطابق بگو کا غصہ اس واقعہ کا سبب بنا۔ متاثرہ کے خاندان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ زرناز گزشتہ دو سالوں سے ایک مخلص بیوی تھی۔
مقامی ذرائع نے واقعات کے مختلف تفصیلات پیش کیے ہیں جس کے مطابق زرناز کو اس کے گھر سے زبردستی نہیں لے جایا گیا تھا۔ بلکہ اس کے شوہر نے گھر واپس آنے پر اسے توصیف کے ساتھ بیٹھے پایا۔
پتھریلا علاقہ ہونے کے باعث بگو کے پاس پتھروں تک رسائی آسان تھی اور اس نے وہی اٹھا کر اپنی زوجہ کو مارے۔ مبینہ طور پر زرناز ان کے گھر کے اندر ہی گر گئی، اور وہیں دم توڑ گئی۔
“[قبائلی مرد] جاہل لوگ ہیں۔ وہ اپنی بہنوں، بیٹیوں، ماؤں یا بہوؤں کو کسی اور سے دشمنی کی وجہ سے کارو کاری (غیرت کے نام پر قتل) کا کہہ کر قتل کر دیتے ہیں۔ وہ ثبوت کا انتظار نہیں کرتے۔ جب خواتین کی بات آتی ہے تو وہ اب بھی پرانے زمانے میں رہتے ہیں،”
ایک مقامی رپورٹر الیاس نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
تینوں ملزمان ابھی فرار ہیں، جبکہ متاثرہ کے خاندان کا پختہ یقین ہے کہ وہ پنجاب سرحد سے تقریباً تین کلومیٹر دور بلوچستان میں پناہ گزیر ہیں۔
بی ایم پی کے مطابق ملزم کو جلد از جلد گرفتار کرنے کی کوشش جاری ہے، اور اب تک وہ ملزم کے اور اس کے قریبی رشتہ داروں کے گھر پر چھاپہ مار چکے ہیں۔ تاہم، خطے کا چٹانی اور ناہموار علاقہ کاروائی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
مقامی ذرائع نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ پنجاب پولیس کا محدود دائرہ اختیار انہیں بلوچستان میں گرفتاری سے روک رہا ہے، اور بلوچستان پولیس کے تعاون کے بغیر گرفتاری ممکن نہیں ہے۔
“ہم غریب لوگ ہیں۔ ہماری نہ تو کوئی زمین ہے اور نہ ہی علاقے میں کوئی نام ہے۔ ہمارے پاس پولیس کی مدد پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہم اپنی بیٹی کے لیے انصاف کے منتظر ہیں،‘‘
داد نے کہا۔