27 ستمبر 2023
تحریر: مریم مثال
لاہور
نگران وزیراعلی خیبر پختون خواہ کے نوٹس کے باوجود وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی معراج خالد کا گھر تاحال خطرے میں ہے۔
بدھ کے روز کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان ظفر الاسلام خٹک نے عوام کو یقین دلایا کہ صحافی معراج خالد کے جنوبی وزیرستان مقام وانا میں واقع گھر کی حفاظت کے لیے پولیس تعینات کر دی گئی ہے۔
معراج خالد نے چند روز قبل سوشل میڈیا پر مقامی جرگوں کی سرگرمیوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک پوسٹ کی تھی۔
پوسٹ میں معراج نے لکھا تھا کہ، “ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی نے کوئی غلطی کی ہے.سزا دینا ریاست کا کام ہے لیکن ہم جہاں جی رہے ہیں وہاں ریاست کے اندر ریاست ہے.خدارا کسی کا گھر مسمار نہ کرے گھر مسماری کیوجہ سب سے ذیادہ بچے اور فیملز متاثر ہوتے ہیں ان کا کیا قصور ہے.”
بعد از معراج کے بعد زلی خیل قوم جرگہ کی جانب سے دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں کہ وہ 10 لاکھ تک جرمانہ ادا کرے ورنہ اس کا گھر گرا دیا جائے گا۔
‘میں ریاست کے اند ریاست نہیں مانتا۔’
معراج خالد نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ان کی دھمکی پر عمل نہیں کیا کیونکہ اب ہم ریاست کا حصہ ہیں جو ہمیں حقوق دیتی ہے اور ہمیں ایک آئین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
“اگر میں نے کوئی غلطی کی ہے تو آپ مجھے چیلینج کر سکتے ہو عدالت میں۔ میں ریاست کے اند ریاست نہیں مانتا۔”
معراج کے جواب نے جرگے کے عمائدین کو متحرک کر دیا اور انہوں نے اس کے خاندان کو پیر پچیس ستمبر تک اپنا گھر اور زمینیں خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا جو انہوں نے کیا اور پناہ کے لیے اسلام آباد چلے گئے۔
معراج نے کہا کہ اگرچہ گھر مسمار نہیں ہوا لیکن گھر کو تالے لگائے گئے جبکہ ان کے والدین اور بیوی بچے اسلام آباد میں ایک کرائے کے مکان چلے گئے ہیں۔
معراج خاندان کو دھمکیوں کے علاوہ جرگے نے علاقہ مکینوں کو معراج کے خاندان کو پناہ دینے یا مدد نہ کر نے سے سختی سے منع کیا۔
معراج کے والد کا ریاست سے سوال ہے کہ ہمیں کیوں اس جرم کے لیے کیوں جواب دہ ٹہرایا جا رہا ہے جو ہم نے کیا ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ، “میں اسلام آباد اس لیے جا رہا ہوں تاکہ میں اپنی شناخت معلوم کر سکوں کہ کیا میں پاکستانی ہوں کہ نہیں۔۔۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ مجھ پر اس جرم کا الزام کیوں لگایا جا رہا ہے جو پاکستان میں جرم ہی نہیں ہے۔”
میڈیا سے بات کرتے ہوئے کمشنر ظفرالاسلام خٹک کا کہنا تھا کہ صحافی معراج خالد کے گھر کی حفاظت کے لیے پولیس تعینات کی گئی ہے تاہم معراج کا کہنا ہے کہ پولیس کی موجودگی کے باوجود ان کے گھر اور کھیت کو سیل کر دیا گیا ہے اور کوئی گھر تک نہیں جا سکتا۔
معراج نے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ پولیس بھی جرگہ فورسز سے خوفزدہ ہے کیونکہ وہ عام طور پر ہزار لوگوں کو جمع کرتے ہیں اور گھروں پر حملہ کرتے ہیں۔
‘میں صحافی ہوں اگر میں ایک باران کی دھمکی سے ڈر گیا تو یہ بار بار ایسے ہی کریں گے۔’
معراج دو ہزار اٹھارہ میں فاٹا کے شمولیت کے بعد سے وزیرستان میں مقامی جرگوں کی کارروائیوں کے بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں۔
معراج کو ماضی میں مقامی جرگوں کی جانب سے ان فیصلوں اور پالیسیوں پر خاموش رہنے کی تنبیہات بھی موصول ہوئی تھیں۔
ایک مقامی رپورٹر کے مطابق، مقامی جرگوں کے حکم پر وزیرستان کے خیبرپختونخوا میں شمولیت کے بعد سے اب تک تقریباً تیس سے پینتس مکانات مسمار کیے جا چکے ہیں۔
معراج کا کہنا ہے کہ، ‘میں صحافی ہوں اگر میں ایک باران کی دھمکی سے ڈر گیا تو یہ بار بار ایسے ہی کریں گے۔ میں نے یہ قربانی اس لیے دی کہ میری وجہ سے جو دیگر صحافی کو بھی ریلیف مل سکے۔۔ کیونکہ یہ لوگ تو ایک پوسٹ پر لوگوں کو جلا وطن کر دیتے ہیں اور ان کے گھر مسمار کر دیتے ہیں