٩ اکتوبر ٢٠٢٣

تحریر: مریم مثال


لاہور

پاکستان میں پیشہ ورانہ تحفظ اور صحت کے قوانین کی موجودگی کے باوجود پاکستان میں سٹون کرشنگ یونٹزمیں موجود مزدور صحت کے مسائل کا مسلسل شکار ہو رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حمایت سے کی جانے والی اسامہ خاور گھمن کی ایک تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سٹون کرشنگ کی صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کو اکثر صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اوران میں سے بہت سے کم عمری میں ہی جان کی بازی ہار بیٹھتے ہیں۔ 

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق، دنیا بھر میں سالانہ بائیس لاکھ افراد کام سے متعلق بیماریوں یا واقعات کی وجہ سے  جاں بحق ہوتے ہیں۔ مزید برآں، ستائیس کروڑ سے زیادہ افراد زخمی ہوتے ہیں، اور تقریباً سولہ کروڑ افراد اپنے پیشے کی بدولت مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان کے فیکٹریز ایکٹ 1934 ( جس کی آخری بار 2012 میں نظر ثانی کی گئی)، اور خطرناک پیشوں کے قواعد 1963 کا مقصد ملازموں کی صحت اور حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ مگر ان قوانین کے باوجود، ملک میں فی الحال پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت (او ایس ایچ) پر توجہ مرکوز کرنے والے قوانین کی کمی ہے۔

 پنجاب میں پتھر کا کام کرنے والی صنعتوں میں یہ  کمی تشویش کا باعث ہے، جہاں کام کے دوران بہت سے ملازموں کو کرسٹل لائن یعنی سلکا کی دھول کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے پھیپھڑوں کی بیماری، سلیکوسس جنم لیتی ہے۔ 

پاکستان میں موجود سٹون کرشنگ پلانٹز سے تقریباً پانچ لاکھ افراد براہ راست منسلک ہیں۔

 حالیہ دنوں میں، سپریم کورٹ آف پاکستان سلیکوسس سے متعلق کیسز میں سرگرم رہی ہے،  سپریم کورٹ کے احکامات نے حکومت اور صنعت کے اسٹیک ہولڈرز پر ان مسائل کا جا ئزہ لینے کا ایک واضح  دباوؑ ڈالا ہے۔ موجودہ قوانین کے باوجود، ان پر عمل درآمد کی کوئی حقیقی صورت سامنے نہ آسکی۔ 

بیماری کو روکنے کے لیے مثبت اقدامات

2018 میں  سپریم کورٹ میں پیش کی گئی لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں پنجاب میں پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کونسلز کے قیام کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تاہم اس کی تصدیق نہ ہو سکی۔

البتہ، پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے فیکٹریز ایکٹ 1934 کے مطابق مزدوروں کے معائنے کے لیے ایک چیک لسٹ تیار کی گئی ہے۔

مزید برآں، پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کی جانب سے پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت سے متعلق شکایات کی اطلاع دینے کے لیے ٹول فری ہیلپ لائن بھی تشکیل کی گئی ہے۔ سلیکوسس کے خطرات کے بارے میں عوامی خدمت کے پیغامات، ہدایاتی کتابچے، اور آگاہی مہم جیسی کوششیں بھی شروع کی گئی ہیں۔

آئی ایل او اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 1995 میں ایک پروگرام شروع کیا، جس کا مقصد 2030 تک عالمی سطح پر سیلیکوسس کا خاتمہ کرنا تھا۔ یہ پروگرام احتیاطی حکمت عملیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور سلیکا کا متبادل مواد استعمال کرنے پرزور دیتا ہے۔

پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کے لیے پاکستان کا بنیادی ریگولیٹری فریم ورک فیکٹریز ایکٹ 1934 ہے، اس کے بعد فیکٹریز (ترمیمی) ایکٹ 2022 ہے۔ ان قوانین میں سٹون کرشنگ یونٹز میں  کام کرنے کے لیے ہدایات شامل ہیں۔

پنجاب پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت ایکٹ 2019، جو لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان  کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے، آجروں کو کام کی جگہ پر مزدوروں کی حفاظت کو یقینی بنانے، وقتاََ فوقتاََ تربیتی  پروگرامز، اور حفاظتی لباس اور سامان فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ 

تاہم، اس قانون میں سال 2022 میں ایک ترمیم کی گئی، جس نے کچھ دفعات کی سختی میں کمی کی ہے۔

 

پنجاب کی سٹون کرشنگ انڈسٹری میں پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت پر موجودہ تحقیق

2018 کی لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس سب کے باوجود مختلف صوبوں میں سلیکوسس کے کیسز کی موجودگی ہے۔ 

موجودہ ڈیٹا کے مطابق متاثر ہونے والے بہت سے مزدور نسبتاً کم عمر ہوتے ہیں، ہلاق ہونے والے مزدوروں میں سب سے کم  15 سال  اور سب سے زیادہ 29 سال عمرکے مزدور شامل ہیں۔ 

پنجاب آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایکٹ 2019 خطے میں کام کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ایکٹ کی موجودگی کے باوجود، چار سال بعد بھی  پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کونسلز تشکیل نہیں دیے گئے۔ 

تحقیق کے مطابق، سلیکوسس سے متعلق مسائل کے معاملات میں مالی امداد کی فراہمی کی شرح کم ہے اور پتھر کرشنگ یونٹس کے غیر رسمی آپریشنز اور وسیع دستاویزات کی ڈیمانڈ اس عمل کو مزدوروں کے لیے مزید مشکل بناتی ہے۔ 

رپورٹز کے مطابق، پنجاب کی سٹون کرشنگ انڈسٹری میں یونینز کی کمی  ہے، کیونکہ بہت سی صنعتیں غیر رجسٹرڈ ہیں۔ نتیجتاً، بہت سے کارکنان کے پاس اپنی ملازمت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات موجود نہیں ہیں.

تجاویز 

تحقیق میں شامل تجاویز کے مطابق حکومت کو ایک خصوصی کمیشن قائم کرنا چاہیے جو سیلیکوسس کے تمام متاثرین اور ان کے قانونی حقوق کی شناخت کرے اور اس معاوضے کی مقدار کا تعین کرے جس کے وہ حقدار ہیں۔

مزید براں پنجاب آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایکٹ 2019 کے تحت تجویز کردہ  پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کونسلز کو فوری طور پر قائم کیا جانا چاہیے اور ان قوانین کی دفعات کو نافذ کرنے کے لیے درکار انسانی اور مالی وسائل فراہم کیے جانے چاہیے۔ 

تحقیق میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ آجروں کو پتھروں کو کچلنے والی فیکٹریوں میں تمام کارکنوں کو مفت ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کا پابند ہونا چاہیے تاکہ ملازمین کو مالی امداد تک آسان رسائی حاصل ہو سکے۔

تحقیق میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ عالمی سطح پر سلیکوسس کی علامات 10 سے 15 سال بعد ظاہر ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں یہ مدت کم دکھائی دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے متاثرہ افراد پہلے سے ہی اس بیماری میں مبتلا ہو تے ہیں اور وہ بھی ان فیکٹریوں میں ملازمت کررہے ہوتے ہیں۔ تحقیق کا کہنا ہے کہ اس لیے ان مزدوروں کی تشخیص ضروری ہے تاکہ بیماری کو روکا جا سکے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here