تحریر
منیزے جہانگیر
اسلام آباد
اگرچہ پاکستانی فٹبالر کرشمہ علی یہ عید اسلام آباد میں گزار رہی ہیں، لیکن وہ اپنے آبائی شہر چترال میں عید کی تقریبات کے آرام اور قربت سے ضرور محروم ہیں۔ وائس پی کے کی ایڈیٹر انچیف منیزے جہانگیر کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کرشمہ علی نے انکشاف کیا کہ قومی ٹیم کی کھلاڑی بننے کے بعد بھی ان کی جدوجہد ختم ہونے سے بہت دور ہے۔
ایک پدرانہ معاشرے میں اور ایک ایسے ملک میں پروان چڑھنے والی لڑکی کے طور پر جہاں کھیلوں میں سرمایہ کاری کے بارے میں سنا نہیں جاتا، کرشمہ علی کا فٹبال اسٹار کے طور پر قدم جمانے سے پہلے بہت سی رکاوٹیں تھیں_
وہ یاد کرتی ہیں کہ فٹ بال کھیلنے کی اجازت دینےپر ان کے والدین کے خلاف شدید تنقید کی گئی جسکی وجہ ان کا خاندان کچھ عرصہ سخت ذہنی کوفت اور پریشانی میں رہا _
“ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ والدین بھی شرمندہ ہو جاتے ہیں۔ وہ ایسی باتیں سنتے ہیں جیسے “آپ اپنی بیٹیوں کو کیا کروا رہے ہیں؟ اور یہ کہ وہ اچھے والدین نہیں ہیں،‘‘کرشمہ علی نے کہا_
پاکستانی فٹبالر کو 2019 میں فوربس 30 انڈر 30 ایشیا کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا_ خاتون فٹبالر کا مزید کہنا تھا ان کی کامیابیوں کے لیے ان کے خاندان کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا گیا۔ “اس نے مجھے ان تمام ذاتی حملوں سے کہیں زیادہ تکلیف پہنچائی جو مجھ پر کیے گے۔”
یہاں تک کہ چترال ویمنز اسپورٹس کلب میں داخلہ لینے کی خواہشمند نوجوان لڑکیاں کو بھی نہیں بخشا گیا۔یہ کلب 2016 میں ایک تربیتی کیمپ کے طور پر شروع ہوا تھا اور دو سال بعد مکمل طور پر ایک مرکز میں تبدیل ہو گیا تھا _
“وہ کلب کی تمام لڑکیوں کو نشانہ بناتے اور ان کے بارے میں خوفناک باتیں کہتے… ان تبصروں کو میں کبھی نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔”
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کرشمہ علی نے اس شدید تنقید کا سامنا کرنا سیکھ لیا تھا _
“مجھے اس بات کو قبول اور تسلیم کرنے میں کچھ وقت لگا کہ میں اس تنقید کی وجہ سے کئی راتیں رو رو کر سوئی تھی ۔ میں اس بات کو چھپاتی تھی کیونکہ مجھے لگا کہ یہ بہت شرمناک ہے۔ لیکن جب آپ چیزوں کو تبدیل کرنے کے مشن کے ساتھ کام کرتے ہیں تو چاہے چیزیں کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہوں، آپ کو ان سب سے لڑنا ہوگا اور یہ کام کرنا ہوگا۔”
کرشمہ علی ہار نہیں مان سکتی – ابھی نہیں، کبھی نہیں۔ ایک ترقی پذیر ملک میں جہاں تقریباً نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے، انہیں مزید پیچھے دھکیلنے کے بجائے آگے لانے کی ضرورت ہے۔
“ہمارا معاشرہ خواتین کو بہت سی چیزوں سے روکتا ہے۔ اگر ہم اپنی خواتین اور اپنی لڑکیوں کو مزید چیزوں میں شامل نہیں کریں گے تو ہم بحیثیت قوم ترقی نہیں کر سکتے۔”
شمولیت کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کیونکہ ریاست اور معاشرہ خواتین کے فٹ بال کو کتنی کم اہمیت دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے لیے کرشمہ علی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے “بدقسمتی” کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔
“خواتین معاشرے کے خلاف جدوجہد کر کے ایک چیلنج سے ابھرتی ہیں اور آخر کار یہ سوچ کر کہ ان کے لیے راستہ کھل گیا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے!‘‘ وہ کہتی ہیں_ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین ایتھلیٹس اس سے بھی زیادہ گہرے خطرے میں پڑ جاتی ہیں جس سے وہ باہر نہیں نکل سکتیں۔
“ہماری سپورٹس فیڈریشنز کچھ نہیں کر رہی ہیں _ہمارے گراؤنڈز بند ہیں، تربیتی کیمپ نہیں ہو رہے، کوئی وظیفہ نہیں…”
ایک بار جب خواتین ایتھلیٹس قومی سطح پر پہنچ جاتی ہیں، تو انہیں عالمی سطح پر ان بین الاقوامی ٹیموں کے خلاف مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو بہت بہتر اور وسیع تربیترکھتی ہیں۔ اہم فرق کھیلوں میں سرمایہ کاری ہے۔
“ہم ہنر مند ہیں۔ ہم دنیا کی سب سے بڑی آبادی میں سے ایک ہیں، ہمارے پاس بہت سے نوجوان ہیں جو کھیلوں کے شوق سے بھرے ہیں۔ لیکن اگر ملک نے ان نوجوان کھلاڑیوں کو پالش یا سپورٹ نہیں کیا گیا تو یہ سارا ٹیلنٹ رائیگاں جائے گا۔ اور اب کئی سالوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔”
(پاکستانی فٹبالر کرشمہ علی کا یہ انٹرویو وائس پی کے کی انگریزی ویب سائٹ پر تین مارچ، ٢٠٢٢ کو شائع کیا گیا)