24 نومبر 2022
تحریر: احمد سعید
قربان (فرضی نام) نے جب 2021 میں میٹرک کے امتحانات میں اسی فیصد سے زیادہ نمبرز لئے تو ان کے والدین کی آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے سپنے جاگ اٹھے ۔ ان کو امید ہو گی کہ ان کا بیٹا اب پڑھ لکھ کر پورے خاندان کو پسماندگی کی دلدل سے نکل لئے گا، اسی لئے قربان کے والد نے اس کا اپنی معاشی اسطاعت سے بڑھ کر علاقے کے سب سے بہترین کالج میں اپنے بیٹے کا داخلہ کروایا۔
قربان ایک مسیحی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ پنجاب کے ضلع پاکپتن کے علاقے ملکہ ہانس میں رہائش پذیر ہیں۔ان کے والد لوگوں کے گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔
قربان کے والدین کو جولائی 2022 میں اپنے بیٹے کے رویے میں تبدیلی محسوس ہوئی۔ ان کا بیٹا اچانک سے خاموش رہنے لگا اور ہر چند دن بعد بیمار ہونے لگا_ پہلے پہل وہ سمجھے کہ شاید قربان نے پڑھائی کا زیادہ پریشر لیا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی صحت گرتی جا رہی ہے۔ مگر جب چند دن بعد قربان نے کالج جانے میں حیل و حجت سے کام لیا تو اس کے ماں باپ کی پریشانی بہت بڑھ گی۔
دونوں والدین نے اس سے الگ الگ بات کر کے اس درپیش مسلے کو دریافت کرنے کی کوشش بھی کی مگر قربان نے انھیں سب اچھا ہے کہہ کر ٹال دیا مگر حقیقت میں سب بہت برا تھا۔
دراصل قربان کو اس کے علاقے کے چند بدمعاش لڑکوں نے جون کے مہینے میں نشہ آور انجکشن لگا کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ ان لڑکوں نے اس سارے عمل کی فلمبندی بھی کی تاکہ وہ قربان کو اپنے خلاف کسی بھی تادیبی کارروائی سے روک سکیں اور مستقبل میں بھی اسے بلیک میل کر سکیں اور ایسا ہوا بھی۔
قربان کو گینگ ریپ کا نشانہ بنانے والے مرکزی ملزم اسد عرف ساقی ایک میڈیکل اسٹور پر کام کرتا تھا ۔ قربان کو کالج جاتے ہوئے اسی راستے سے گزرنا پڑتا تھا۔ اسد آتے جاتے قربان کو تنگ کرتا اور اس پر آوازیں کس کر ہنسا کرتا تھا جس سے قربان سخت ذہنی کوفت میں مبتلا ہو جاتا تھا۔ اسد نے جولائی میں ایک دفعہ پھر قربان کو اس کی پچھلی ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی لگا کر ایک دوست کی بیٹھک میں لے جا کر اس کا جنسی استحصال کیا اور پھر یہ عمل ایک معمول بننے لگا۔
اب قربان خوفزدہ رہتا تھا اور اس کی صحت خراب ہوتی جا رہی تھی جس کا بہانہ بنا کر وہ کالج سے چھٹیاں کرنے لگا۔
قربان کے والدین کو ایسے لگنے لگا کہ ان کا بٹیا شاید پڑھائی ترک کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ اس بات کو لے کر بہت پریشان ہو گے تھے کیوں کہ ان کا بیٹا ہی ان کی ترقی کی امیدوں کا واحد مرکز تھا۔
اچانک ایک دن قربان کی والدہ کو اس کو لے کر بازار ایک کام سے گئی _ قربان اپنی سوچوں میں گم آہستہ آہستہ قدم لیتا چل رہا تھا جب کہ اس کی والدہ ایک دکان پر رک کر کچھ سامان دیکھنے لگ گی_ قربان آہستہ آہستان چلتا ہوا اسی میڈیکل اسٹور کے سامنے آ گیا جہاں ساقی کام کرتا تھا۔
، اور ساقی نے اسے دیکھ کر اسد پر آوازیں کسنا شروع کر دی۔ قربان نے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی اور ارد گرد نظریں دوڑا کر اپنی ماں کو تلاش کرنے لگا۔ اچانک اسے اپنی پشت پر ایک انجان ہاتھ محسوس ہوا اور کوئی چیز اس کی کمر میں چھبتی محسوس ہوئی۔ یہ ساقی تھا جو کہ قربان کو ساتھ چلنے کا بول رہا تھا کہ تاکہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کا جنسی استحصال کر سکیں۔
ابھی قربان کا ذھن تمام صورتحال کو بھانپ ہی رہا تھا کہ اس کو پیچھے سے اپنی ماں کی آواز آئی جو اس سے اونچی آواز میں پوچھ رہی تھی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ قربان کی والدہ کی آواز سن کر ساقی گھبرا گیا اور اور جلدی سے پیچھے ہٹھتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ سے کوئی چیز شلوار میں ڈالنے کی کوشسش کی، لیکن قربان کی والدہ نے دیکھا لیا تھا کہ وہ چیز ایک پستول تھی۔
پستول دیکھ کر اس کی والدہ نے شور مچا دیا ور لوگوں کو اکھٹا کر لیا۔ مگر اتنی دیر میں ساقی بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔
قربان کی والدہ نے اپنے شوہر کو فون کر کے ساری صورت حال بتائی اور فوری طور پر گھر پہنچنے کا کہا۔ دونوں نے والدین اپنے بیٹے کو تسلی دی اور اس سے ساری بات تفصیل سے بتانے کو کہا جس کے بعد قربان نے انھیں اپنے ساتھ تین مہینے سے پیش آنے والے واقعات کی تفصیلات بتائیں جن کو جان کر دونوں میاں بیوی پریشان ہوں گے۔
اس کے بعد قربان نے تمام صورتحال علاقے کے بااثر افراد کو بتائیں جنہوں نے جب اپنے طور پر پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ ساقی نے علاقے کے کچھ اور لڑکوں کو بھی جنسی استحصال کا نشانہ بنایا ہے اور اس کی ویڈیوز کچھ لوگوں کے پاس موجود بھی ہیں_ علاقے کے بڑوں نے وہ ویڈیوز حاصل کر کے قربان کے والد کو دی اور اس کو پولیس میں ایف آئی آر درج کروانے کا کہا۔
پولیس نے ویڈیوز دیکھنے اور قربان کے بیان کے تناظر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت ریپ کا مقدمہ درج کر لیا اور مرکزی ملزم اسد عرف ساقی کو گرفتار کر لیا۔لیکن اس کے بعد پولیس نے تفتیش میں زیادہ دلچسپی نہ دکھائی اور معاملے کی سنگینی کے باوجود نہ تو مقامی کلینک کے مالک کو گرفتار کیا اور نہ ہی موبائل فون برآمد کیے۔
پولیس کی عدم’دلچسپی کی وجہ سے کیس شروع سے ہی کمزور ہو گیا تھا اور عدالت نے کمزور شواہد کی بنا پر مرکزی ملزم کو ضمانت پر رہا بھی کر دیا۔
اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے سہم گیا ہے اور انتہائی کم گو ہو چکا ہے۔ اس نے کالج جانا چھوڑ دیا ہے کیوں کہ اس کے ساتھی طلبہ معاملے کی سنگینی سے لا علم اس کا ہی مذاق اڑاتے ہیں۔
دوسری طرف قربان کے والدین کو امید تھی کہ پولیس اس واقعے کے کرداروں کو سزا دلوانے میں غیر معمولی کردار ادا کرے گی مگر پولیس کی کارگادگی سے انھیں شدید مایوسی ہوئی ہے۔ عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل نے قربان کو مفت قانونی مدد فراہم کی ہے اور اب وکلاء نے ضمانت پر رہا افراد کی دوبارہ گرفتاری کے لئے استغاثہ کی درخواست دائر کر دی ہے۔
قربان کی والدہ اب بھی روز اپنے بیٹے کے کالج یونیفارم کو اس امید سے حسرت بھری نگاہوں سے تکتی ہیں کہ ان کے بیٹے کے مجرموں کو سزا ملے تاکے قربان پھر سے نارمل زندگی کی جانب لوٹ یر اپنی تعلیم مکمل کر کے پورے خاندان کو پسماندگی کی دلدل سے نکال لے۔