تحریر: احمد سید


لاہور

گوادر اب دو ہفتوں سے زائد عرصے سے احتجاج کی لپیٹ میں ہے۔ بلوچستان میں واقع یہ بندرگاہ اربوں ڈالر کے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کا گیٹ وے ہے _

احتجاج کا اہتمام حق دو گوادر تحریک نے کیا ہے، جس میں مظاہرین گوادر کے ساحل سے غیر قانونی ٹرالنگ روکنے، سیکیورٹی چیک پوسٹوں کو ہٹانے اور شہر کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

حق دو گوادر تحریک کی سربراہی جماعت اسلامی بلوچستان چیپٹر کے جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمان کررہے ہیں، تاہم رحمان کا دعویٰ ہے کہ اس تحریک کو معاشرے کے تمام طبقات اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔

“یہ بنیادی طور پر ایک عوامی تحریک ہے،” مولانا ہدایت الرحمان نے وائس پی کے کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتلایا ۔ان کے مطابق ماضی میں بلوچستان کے نوجوانوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا بدلہ لینے کے لیے ہتھیار اٹھائے لیکن وہ پرامن اور جمہوریت پسند لوگ ہیں اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

تحریک کیسے شروع ہوئی۔

رحمان کے مطابق گوادر کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا گیا تھا اور عوام کا غصہ طویل عرصے سے بھڑک رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اپنے حقوق کے لیے بولنا چاہتے تھے لیکن نتائج سے خوفزدہ ہیں۔

“کچھ مہینے پہلے، ہماری سیکورٹی حکام سے ملاقات ہوئی تھی جہاں میں نے انہیں واضح طور پر کہا تھا کہ ہم [گوادر کے لوگ] کسی قسم کی تذلیل برداشت نہیں کریں گے۔ ہم بے غیرت لوگ نہیں ہیں،‘‘ رحمان نے کہا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ میں بغیر کسی خوف کے ان کے حقوق کی بات کر رہا ہوں تو وہ میرے ساتھ کھڑے ہو گئے کیونکہ میں نے خوف کا یہ راج توڑ دیا ہے۔

تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جیسے جیسے تحریک کو زیادہ حمایت مل رہی ہے، چندعناصر نے ان کے خلاف مہم شروع کی ہے، انہیں سی پک (CPEC) مخالف قوتوں کا ایجنٹ قرار دیا ہے۔

’’یہ ایک رواج بن گیا ہے… لوگوں کی شکایات سننے کے بجائے یہ عناصر ان پر ایجنٹ کا لیبل لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم نے پینے کا صاف پانی مانگا اور جواب میں وہ کہتے ہیں کہ تم ہندوستانی ایجنٹ ہو!

تحریک کے اہم مطالبات کے بارے میں بات کرتے ہوئے رحمان نے کہا کہ اصل مسئلہ لوگوں کی معاشی پریشانیاں ہیں جو ٹرالر مافیا اور ایران کے ساتھ تجارت پر پابندیوں کی وجہ سے بڑھ گئی ہیں۔

ہم حکومت سے یہ نہیں کہہ رہے کہ ہمیں سی پیک میں ہمارا حصہ دیا جائے اور نہ ہی اورنج لائن ٹرین فراہم کی جائے، نہ ہی ہم یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں نوکریاں دی جائیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ حکومت ہمیں آزادی سے کام کرنے دے،‘‘ انہوں نے کہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر انہیں کام کرنے دیا جاتا ہے تو وہ ٹیکس کی صورت میں حکومت کو فنڈز واپس کریں گے۔

رحمان نے کہا کہ ٹرالر مافیا بندرگاہ پر سمندری حیات کو تباہ کر رہا ہے لیکن وہ اتنے طاقتور ہیں کہ کوئی انہیں روکنے کی جرات نہیں کر سکتا۔

’’وہ اتنے بااثر ہیں کہ ہمارے مسلسل احتجاج کے باوجود ٹرالر مافیا نے ایک دن بھی اپنی کارروائیاں بند نہیں کیں‘‘۔

“دن میں پانچ بار میری شناخت مت پوچھو”

گزشتہ چند برسوں میں گوادر میں دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں جن میں متعدد معصوم جانیں جا چکی ہیں۔ چونکہ یہ شہر CPEC کے روٹ کا ایک بڑا مرکز ہے، اس لیے شہر کی حفاظت کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا ہے۔ شہر کے اندر کئی حفاظتی پکٹس ہیں، جو سیکورٹی فورسز اور لوگوں کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ بن چکے ہیں۔

رحمان نے کہا کہ دوسرا بڑا مسئلہ جس کا ہمیں سامنا ہے وہ سیکورٹی چیک پوسٹوں کا ہے۔ “ہم سمجھتے ہیں کہ علاقے میں سیکورٹی کے مسائل ہیں لیکن ہر کلومیٹر کے بعد سیکورٹی چیک پوسٹیں کیوں ہیں؟ مجھ سے دن میں پانچ بار اپنی شناخت ثابت کرنے کو کیوں کہا جاتا ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے یہ مسئلہ سول اور فوجی حکام کے ساتھ اٹھایا ہے جنہوں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ آنے والے دنوں میں اسے خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے گا۔

خواتین ہماری تحریک کا حصہ رہیں گی۔

اگرچہ رحمٰن جماعت اسلامی کے ایک عہدیدار ہیں، جو کہ ایک دائیں بازو کی سیاسی قوت ہے، اور وہ واضح طور پر خواتین کو سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی ترغیب نہیں دیتے، تاہم انہیں 29 نومبر کو خواتین کی ریلی کے انعقاد پر داد ملی ہے، جس میں سینکڑوں خواتین نے گوادر شہر میں مارچ کیا اور اپنے حقوق کے لیے تقاریر کیں۔

رحمان کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی تحریک اس میں خواتین کی شمولیت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ آبادی کا نصف ہیں۔

“انہیں بھی مردوں کی طرح مسائل کا سامنا ہے، اس لیے انہیں بھی احتجاج کرنے کا حق ہے۔ وہ ہماری تحریک کا حصہ رہیں گے اور ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خواتین سیاسی اور سماجی طور پر باشعور ہوں۔”

(حق دو گوادر تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کا یہ خصوصی انٹرویو وائس پی کے کی انگریزی ویب سائٹ پر دو دسمبر ، ٢٠٢١
میں شایع کیا گیا )

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here