١٦ دسمبر،٢٠٢٢
بیورو رپورٹ
پشاور
آرمی پبلک سانحہ کو آٹھ سال گزر جانے کے باوجود شہداء کے والدین کے زخم تازہ ہیں اوروہ انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ماوں کے دل کو قرار نہیں آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے احتجاج کرتےوالدین ایک ہی سوال کررہے ہیں کہ انکے جگر گوشوں کی جانیں لینے والوں کوسزا کب ملے گی
اے پی ایس واقعے میں شہید ہونے والے طالبعلم نور اللہ سیف اللہ کے والد تحیسن اللہ کا کہنا تھا کہ وہ آٹھ سال سے انصاف کے لئے ہر دروازے پر دستک دے رہے ہیں مگر کسی نے بھی ان کو انصاف فراہم نہیں کیا.
ایک اور شہید طالب علم محمد علی کی والدہ گل رعنا کا کہنا تھا کہ ریاست کے عہدے دار آ کر دیکھیں کے معصوم بچوں کے جانے کے بعد ان کے والدین کی زندگی کیسی گزرتی ہے. انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے بچوں کے قاتلوں کو سامنے لیا جاے اور اپنے بچوں کے انصاف کے لئے وہ ہر فورم پر جائیں گے.
انہوں نے سوال کیا کہ اے پی ایس واقعے کے حوالے سے جو جی آئی ٹی بنائی گی تھی اس کی رپورٹ کیوں سامنے نہیں لائی گی.
مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمادہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عملدرآمداورکالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی پر زوردیتے ہیں
اے این پی کے رہنما سردارحسین بابک کا کہنا تھا کہ اے پی ایس واقعے کے شہید طالب علمو ں کے والدین انصاف کے لئے تڑپ رہے ہیں مگر حکومت کے عہدے دران ٹس سے مس نہیں ہو رہے.
سولہ دسمبر کو اے پی ایس حملے میں ایک سو چوالیس بچوں سمیت ایک سو ساٹھ لوگ مارے گے تھے اور اس حملے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی.
بدقسمتی سے اس سانحہ کے کردار، سہولت کار اور ذمہ دار آج بھی عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں اسکے باوجود ہر سال 16 دسمبر کو دکھیارے والدین اپنے شہیدوں کی تصاویر اٹھائے مختلف سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں اور رات گئے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں