2023-29 اگست 

وجیہہ اسلم 


 

لاہور

لاہور کے جنوب میں کاہنہ نو کے علاقہ میں آزاد ٹاؤن کی کرسچین کمیونٹی کی 2000ہزار سے زائد آبادی کے لئے  قبرستان ہی  نہیں ہے ۔اس سے سادہ الفاظ میں انسانوں کے بینادی حقوق نہ ملنے کو کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔

 

“جب اس علاقے میں کرسچین کمیونٹی کی آبادی کم تھی تو قریب دربار شریف کی جگہ پر ہم اپنے عقائدکے مطابق مردوں کی تدفین کر دیتے تھے مگر اب چونکہ آبادی زیادہ ہے تو ہمیں اپنے پیاروں کی تدفین کے لئے جگہ نہیں ملتی-“

یہ کہنا ہے 65سالہ ہیرا مسیح کا جوکہ اپنی زندگی کی  کئی بہاریں اس علاقے میں دیکھ چکے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کےآرٹیکل 71 تا 77 مذہبی آزادی اور مذہبی تعلیم کوتحفظ فراہم کرتی ہیں۔ آرٹیکل 72 اور 73 مذہبی بنیادوں پرعوامی مقامات تک رسائی اورعوامی خدمات کی فراہم کے سلسلہ میں امتیازی برتاؤ سے روکتے ہیں۔

 

 

آزاد ٹاؤن کے شہری بھی آرٹیکل 72کے رو سے اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہےہیں- 

مقامی چرچ کے پاردی عابد مسیح کا کہنا ہے، کاہنہ کے قریب کے علاقہ آزاد ٹاؤن میں پلی سٹاپ کے رہائشی ہیں ۔یہاں ایک چھوٹا سا قبرستان موجود ہے وہاں کسی بزرگ ہستی کا دربار شریف ہے ۔دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے آباد کرسچین کمیونٹی کے لئے یہاں قبرستان موجود نہیں ہے۔کرسچین کمیونٹی کے لوگ اپنے پیاروں کی تدفین کے لئے 5 کلو میٹر دور ایک جگہ لدھے کی دلہن لے جاتےہیں ۔

ان سے پوچھا گیا کہ لدھے کی دلہن کون سی جگہ ہے ؟ پادری عابد نے بتایا کہ لدھے کی دلہن علاقائی قبرستان کا نام ہے جہاں مسیحی برداری اپنے پیاروں کی تدفین کرتی ہے۔

پلی سٹاپ اور سٹرک کی دوسری جانب اڈا سوہ اصیل بس سٹاپ دونوں علاقو ں میں مسیحی برداری لدھے کی دلہن قبرستان استعمال کرتی ہے۔یہاں جو جگہ کرسچین کمیونٹی کے لوگوں کو علاقہ کی طرف سے افہام وتفہیم کے بعد دی گئی ہے وہ ہمارے پیادروں کی تدفین کے لئے جگہ کم ہو گئی ہے۔دوسرا اہم مسئلہ یہ ہمارے علاقے سے قریباً ً 5 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اس قبرستان میں جاتے ہوئے ٹرانسپورٹ کا کرایہ بہت زیادہ لگ جاتا ہے ۔دونوں علاقوں میں مقیم مسیحی برادری غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔جب لدھے کی دلہن لے کر جاتے ہیں ایمولینس کے ساتھ ساتھ دوسری گاڑیاں کا فیملی اور رشتہ داروں کے لئے بھی انتظام کرنا پڑتا ہے۔اس تمام عمل میں مالی طور پر ایک کمزور خاندان بوجھ نہیں اٹھا پاتا اور تدفین کی آخری رسومات میں اکثر قریبی رشتہ داروں کے علاوہ کوئی اور شرکت نہیں کر پاتا‘۔

 

ا سں علاقے میں 5 چرچ کرسچین کمیونٹی کی عبادت گاہ کے لئے موجودہ ہیں ۔ یہاں کے مشہور چرچوں میں Gospel Prayer Assemblies Church ، دوسرا فرودس چرچ ،تیسرا چرچ Emmanuel Gospel Church چوتھا چرچ Pauper Asher Church ،پانچواں پاسٹر رضا کا چرچ،اور چھٹاچرچ NAM SOUSO Presbytarian  ہے۔

ان تمام چرچوں میں سب بڑا چرچ Emmanuel Gospel Church جس میں دو سے ڈھائی سو سے زیادہ لوگ عبادت کر سکتے ہیں۔

 

اس علاقے کے محل وقوع کی بات کریں توکاہنہ دو آبادیوں پر مشتمل ایک قصبہ ضلع لاہور میں شامل ہے۔ قصور روڈ پر لاہور سے 15 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ میں اس علاقے کے بارے میں لکھا ہوا ہے کہ یہ

“سکھ مت کے بانی گرو نانک کی والدہ کا تعلق اسی قصبے سے تھا۔ اس کو سندھو جاٹ قوم کے کاہنہ نامی زمیندار نے آباد کیا تھا۔دوسری آبادی بھی ایک زمیندار کا چھہ کے نام سے تھی۔ مغلوں کے زوال کے زمانے میں جب جے سنگھ اور سوبھا سنگھ کنہیا مثل کے سردار بنے اور انہو ں نے پنجاب کو خوب لُوٹا۔ وہ یہیں کے رہنے والے تھے اور اس وجہ سے اس قصبے کی آبادی اور رونق میں اضافہ ہوگیا کیونکہ دیگر علاقوں کے لوگ یہاں آکر اس وجہ سے پنا ہ لیتے کہ اسے دیگر لوگ لُوٹنے سے گریز کرتے۔ اس کی آبادی اتنی بڑھی کہ ایک نئی آبادی اور بن گئی ،جو نیا کاہنہ کے نام سے مشہور ہوئی۔”

اس کی غلہ منڈی نواحی دیہات کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ طلبا او رطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ ہائی، مڈل اور پرائمری سکول ہیں۔ مربوط دیہی ترقیاتی مرکز، تھانہ، ڈاکخانہ اورہسپتال بھی ہیں۔

 

 

 

کاہنہ کے قریبی علاقہ آزاد ٹاؤن کے رہائشی ہیرا مسیح اس علاقے میں سب سے پرانے رہنےوالے ہیں۔ علاقے میں ہیرا مسیح ایک بزرگ کی حیثیت رکھتے ہیں ،انکے مطابق وہ اس علاقے میں 32سال سے رہائش پذیر ہیں ۔جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ یہاں پر کیا پہلے سے مسیحی آبادی موجود تھی؟ انہوں نے بتایا کہ جب میں یہاں اپنے گھر والوں کے آیا تو 10سے 12گھر آباد تھے جو کہ یہاں ان کی فیملی سے بھی دس سال پہلے سے اس علاقے میں رہائش پذیر تھے۔

 

ہیرا مسیح کا کہنا ہے کہ چونکہ ابتدا میں انکی آبادی کم تھی تو کرسچین کمیونٹی اپنے پیاروں کو قریب ہی ایک بزرگ کے دربار شریف میں دفن کر کے آخری رسومات ادا کرتے تھے۔

 

 

ابتدا میں مسلم کمیونٹی کی طر ف سے دربار شریف میں کرسچین اپنی رسومات کے مطابق دفن کرتی تھی توکمیونٹی کو کسی قسم کے اعتراضات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا مگر جیسے ہی وہاں مسلم کمیونٹی کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو ہمارے لئے قبرستان میں اپنے پیاروں کی تدفین کے لئے بھی مشکلات مزید بڑھ ہو گئیں۔ موجودہ صورتحا ل میں اپنے مردوں کو دفنانے میں ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ہم لوگ کریں تو کیا کریں یہاں پہلے مقامی حکومت میں منتخب ہونے والے ہمارے مسیحی کونسلر کوئی نہ کوئی بندوبست کر لیتے تھے ۔اب تو کوئی بات سننے والا ہی نہیں۔

کرسچین کمیونٹی کے مسئلے کے حوالے سے گزشتہ حکومت میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سابق رکن پنجاب اسمبلی طارق گل کا تعلق مسیحی برادری سے ہے ان سے پوچھا گیا کہ کیوں قبرستان کے مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘لاہور کے مضافاعتی علاقوں میں نئی پرائیوٹ سوسائٹی اور ٹاؤنز بن رہے ہیں۔ان میں کرسچین کمیونٹی کے لئے قبرستوں کے لئے کوئی جگہ مختص نہیں کی ہوتی۔اسی وجہ سے کرسچین کمیونٹی کے لوگ لاہور کے بڑے گوراقبرستان جس میں جیل روڈ اور بھاٹی چوک کے گورا قبرستان کی طرف رخ کرتے ہیں۔

 

ان سے سوال کیا گیا کہ جن علاقوں میں کرسچین کمیونٹی کے لئے کوئی قبرستان نہیں بنایا جا تا تو کیوں وہاں پر لوگ آباد ہوتے ہیں ؟انہوں نے کہا جب نئی سوسائٹی والوں سے یہ سوال کیا جاتا ہے تو وہ قبرستان کے کوئی جعلی دستاویزات نکال کر لوگوں کو مطمئن کر دیتے ہیں ۔آبادی جب زیادہ ہو جائے تو یہی سوسائٹی کی انتظامیہ کہنے لگ جاتی ہے کہ اپنے لئے کوئی قبرستان کا انتظام کریں تو ایسے حالات میں کرسچین کمیونٹی اسمبلیوں میں بیٹھے اپنے اقلیتوں نمائندوں کی اور مترکہ اوقاف کے لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں۔

 

دوسرازیادہ تر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ لاہور کے مضاعافات میں رہنے والی کرسچین آبادی وہاں قریب گاؤں میں مسلم آبادی کے لوگوں کے ساتھ مسلم قبرستان میں اپنے پیاروں کی تدفین کے لئے کمٹمنٹ کر لیتے ہیں۔یہ معاملات بعض جگہوں پر زبانی اور بعض جگہوں میں تحریری طرز کے کئے جاتے ہیں ‘۔

اگر میں بات کروں تو لاہور شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے تو کوئی ایسی جگہ ابھی باقی نہیں رہی ہاں مگر صوبائی محکمہ اوقاف کے پاس اختیارات ہوتے ہیں کہ اوقاف کی اپنی جگہ یا پھر ہندو پراپرٹی یا کرسچین پراپرٹی کی جگہ میں سے قبرستان کو زمین الاٹ کر دے ۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ لاہور شہر میں ہمارے ایکڑوں پر مشتمل قبرستان اب سکٹر کر مرلوں میں رہ گئےہیں اسکی ایک بڑی وجہ قبرستوں کے قریب آبادی کا دوکان یا ایک کمرے کا مکان بنا کر قبضہ کرنا ہے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ اب قبرستانوں کی جگہ مختص کرنے ،قبرستانوں کی تعمیر نو کرنے اور انکی چاردواری بنانے کے اختیارات کن محکموں کے پاس ہوتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ’ پنجاب کے ادارے اوقاف کے ڈرایکٹر کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ اپنی کوئی بھی زمین کرسچین کمیونٹی،ہندو کمیونٹی یا پھر سکھ کمیونٹی کے لئے وقف کر دیں‘ ۔

انہوں نے مزید کہا کہ کاہنہ کے قریب آزاد ٹاؤن کی آبادی کو لدھے کی دلہن والی جگہ کرسچین کمیونٹی کے قبرستان کے لئے کو الاٹ کر دی گئی ہے مگر عملی طور پر وہ اپنے حق سے آج بھی محروم ہیں ۔ ان سے پوچھا گیا کہ یہ جگہ کس کے دور میں الاٹ کی گئی ؟تو انکا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں2015 جب بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔ اس جگہ کا کل رقبہ تین کلے چار کنال اور آٹھ مرلے کی جگہ الاٹ کی گئی تھی اس قبرستان پر کچھ با اثر لوگوں نے قبضہ کر لیاہے۔ حکومت نے جگہ تو الاٹ کر دی مگر اس کی چار دیواری نہ بنانئے کی وجہ سے اس پر قبضہ ہو گیا ہے ۔ کرسچین کمیونٹی ہزاروں کی تعداد میں یہاں آباد ہے انکو بنیادی حقوق نہیں چھین سکتے۔

 

 

 

ان سے سوال کیا گیا کہ کوئی قانون ہے جس کے تحت ملک بھر کے کرسچین کمیونٹی کو قبرستان کی الاٹمنٹ کی جاتی ہو؟ ’انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں جس سے یہ لازمی قرار پا جاتا ہو کہ کرسچین کمیونٹی کے 2ہزار یا 200 افراد رہائش پذیر ہوں وہاں انہیں قبرستان کی جگہ بھی الاٹ کی جائے گی‘۔

طارق گل مسیح کا مزید کہنا ہے کہ ’ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کے پاس جو خصوصی بجٹ ہوتا ہے اس سے وہ چرچوں کی مرمت ،سٹریٹ لائٹس ،گلیوں محلوں کی سیوریج، سٹرکوں کی مرمت، اور جناز گاہ کی تعمیر کے لیے بھی استعمال کر سکتےہیں۔ اگر دوسری طرف جنرل نشستوں پر منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی میں سے صرف قومی اسمبلی کے ممبر کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی فنڈز سے قبرستان کی تعمیر و نو کر سکیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے ممبر کے پاس یہ اخیتا رنہیں ہوتا۔طارق گل کی اس بات سے متفق نہیں کیونکہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کو حکومت کی جانب سے دئیے گئے فنڈز کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کئے جاتے ہیں۔جب طارق گل کو اس سے آگاہ کیا گیا تو ان کا کہن اتھا ہمیں تو نہیں ملتے۔

 

مقامی حکومتوں کی بات کریں تو علاقہ چئیرمین ،نائب چیئرمین اور کونسلر کے پاس بھی قبرستا ن کی چار دویواری اور تعمیر نو کے اختیارات نہیں ہوتے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019کے تحت انکے پاس صرف گلیوں ،سیوریج ،سٹریٹ لائٹس اور ٹف ٹائیلز لگاوانےکے اختیارات ہوتے ہیں۔

 

 

سابق اقلیتی کونسلر خالد کھوکھر نے ایک اور اہم مسئلہ کی نشاندہی کی کہ بھٹہ مزدور کی آبادی قریباٍ 700سے زیادہ لوگ مصطفی آباد للیانی کے نواحی گاؤں لکھنیکے میں کرسچین کمیونٹی کے لئے بھی قبرستان نہیں ہے۔اگر آزاد ٹاؤن میں کرسیچن کمیونٹی کے قبرستان کو حکومت آپریشنل کر دے تو بھٹہ مزدور بھی اپنے پیاروں کی تدفین اس علاقے میں کروا سکے گے۔اس علاقے میں2010 سے پاکستان مسلم لیگ نواز کے مقامی اقلیتی رہنما جاوید مسیح کا کہنا ہے کہ ’لدھے کی دلہن والا قبرستان کرسچین کمیونٹی کو ہی الاٹ کیا گیا ہے۔افسوس سے کہہ رہا ہوں کہ اس کی چار دیواری نہیں،اسکے علاوہ وہاں پر جانوروں کے باندھا جا رہا ہے‘۔

ملک میں جڑانوالہ واقعہ کے بعد اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو بھی محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ کرسچین کمیٹی کے قبرستوں کے بارے میں مقامی سطح پر حکومت کو کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here