ا گست 25، 2023
وجیہہ اسلم
لاہور
شمشان گھاٹ نہ ہونے کہ وجہ سے80 کی دہائی سے پہلے جب ہندو برادری دریائے راوی کہ قریب اپنے پیاروں کی چتا کو آگ لگاتے تھے تو قریبی آبادی کے لوگ شور مچاتے تھے کے دریا کے کنارے آگ لگ گئی ہے۔
لاہور کے علاقے بی بی پاک دامن کے رہائشی ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہیرا لال رندھاواکہتے ہیں کہ ابھی ہم اپنے پیارے کی آخری رسومات ادا کر رہےہوتے تھے کہ لوگوں کا ہجوم جلتی ہوئی چتا کے گرد جمع ہو جاتا تھا۔ 81 برس کے ہیرا لال رندھاوا ماضی میں ہندوبالمیکی کمیونٹی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
ہندو اور سکھ برادری دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں مگر حکومت پنجاب کی طرف سے بنائےگئے شمشان گھاٹ میں فراہم کی گئی سہولیات ایسی نہیں کہ یہ برادری اپنے مرنے والوں کو اپنے الگ مذہبی طریقے سے الوداع کہہ سکیں۔
2006 میں جنرل پرویز شرف کے دور میں لاہور میں مقیم سکھ اور ہندو برداری کےلئے اپنے پیاروں کی آخری رسومات کے لئے 34کنال اراضی شمشان گھاٹ کے لئے مختص کی گئی تھی۔یہ جگہ دریائے راوی کے قریب بابو صابو موٹروے انٹر چینج پر دی گیئ۔17کنال زمین سکھ کمیونٹی کو 17کنال ہندو کمیونٹی میں تقسیم کی اگئی۔ یہ تقسیم اینٹوں کی دیوار کے ذریعے کی گئی ہے۔دونوں کے شمشان گھاٹ کے باہر الگ الگ تختیاں لگی ہیں۔
متروکہ وقف املاک بورڈ (ای ٹی پی بی) نے دریائے راوی کے بابو صابو چوک کے قریب قائم شمشان گھاٹ کی اپ گریڈیشن کے لیے 14 ملین روپے کی منظوری دی تھی۔15جنوری 2021 وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی ڈاکٹر نور الحق قادری نے شمشان گھاٹ کا افتتاح کیا تھا۔شمشان گھاٹ کو جانے والا راستہ کچا ہے جو کہ خراب موسم میں یہاں آنے والے سکھ اور ہندو برادری کے پریشانی کا باعث بنتا ہے ۔2021مین سڑک کی تعمیر کے لئے 100ملین روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا ور اس کی پی سی ون کی تشکیل کے لئے کمیٹی بھی بنا دی گئی تھی مگر ابھی تک سڑک کا کوئی نام ونشان نہیں ۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق لاہور شہرمیں0.02 فیصد ہندو برادری اور 0.02 فیصد ہی سکھ کمیونٹی آباد ہے ۔اعدادوشمار کے مطابق 1941میں لاہور شہر میں ہندوؤں کی آبادی 26.71 فیصد جبکہ سکھوں کی تعداد5.07فیصد تھی۔
چتا جلانے کے اخراجات غریب کی پہنچ میں کیوں نہیں
ہندو سماجی رہنما ہیرا لال رندھاوا کا کہنا ہے کہ شمشان گھاٹ میں مردوں کو لایا جاتا ہے تو اس کے لئے ایک من لکٹریاں اور دو من خالص گھی استعمال ہوتا ہے ۔خوشبو ،پھول اور پتیوں کا بھی انتطام کیا جاتا ہے۔اس کے بعد پنڈت گیتا کا پاٹ پڑھتے ہیں۔
لکڑیو ں کے ڈھیرمیں جب میّت کوآ گ لگائی جاتی ہے تو یہ آگ تین دن تک لگی رہتی ہے۔ہیرا لال کا کہنا ہے کہ جو ہڈیاں جل جاتی ہیں وہ راکھ سے اکھٹی کر لیں جاتیں ہیں اور جو ہڈیاں رہ جاتیں ہیں ان ہڈیوں کو دودھ کے ساتھ دوھ کر ایک جار میں ڈال دیا جاتا ہے ۔جار کےمنہ کو لال کپڑے سے باندھ کر اسے مندر میں رکھ لیا جاتا ہے۔ہیرا لال نے مزید بتایا کہ اس عمل کے بعد فیملی فیصلہ کرتی ہے کہ کہاں ان آستیوں کو بہانا ہے ،انکا کہنا ہے کہ کوئی دریا روای ،دریا جہلم اور دریائے سندھ میں میں بہانے جاتے ہیں۔ ہندوستا ن کا ویزے کی درخواست دیتے ہیں کہ استیوں کو دریائے گنگا میں جا کر بہاسکیں۔
سکھ برادری اپنے پیاروں کی آخری رسومات کے لئے لاہور میں بننے والے نئے شمشان گھاٹ کو استعمال نہیں کرتی جس کی وجہ وہاں گوردوارے کا نہ ہونا ہے۔
تحریک انصاف کے سابق رکن پنجاب اسمبلی و سابق پارلیمانی سیکرٹری مہندار پال سنگھ کا کہنا ہے کہ لاہور میں سکھ کمیونٹی کے لئے بنایا جانے والے شمشان گھاٹ کی بجائے اگر حکومت ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ کی حالت زار کو اگر بہتر کر دیتی تو یہ سکھ کمیونٹی کے لئے زیادہ اچھا ہوتا۔مہندر پال سنگھ کے مطابق تین شمشان گھاٹ سکھ برادری کے زیر استعمال ہے اس میں ایک سنٹرل پنجاب میں ننکانہ صاحب شمشان گاٹ جو کہ سب سے پرانا ہے انکے مطابق اس شمشاد گھاٹ میں چین سے تعلق رکھنے والے باشندے بھی اپنے پیاروں کی آخری رسومات کے لئے استعمال کرتے تھے۔دوسرانارتھ پنجاب کے راولپنڈی میں اور تیسرا پشاور میں ،پشاور میں قائم شمشان گھاٹ کبھی آخری رسومات کے لئے کھول دیا جاتا ہے کبھی اجازات نہیں ملتی تو ننکانہ صاحب میت کو لا کر آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔مہند ر پال سنگھ ضلع ملتان سے پی ٹی آئی کی مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے ۔
ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چمن لال لاہور میں “سماج سیوا “کے نام ادارے کے سربراہ ہیں۔پنجاب بھر سے تعلق رکھنے والے ہندو برادری کے لوگ اپنے مسائل کے حل کے ان سے رابطہ کرتے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سماج سیوا ادارے کے قیام کا مقصد حکومتی اداروں سے براہ راست اپروچ ہے۔چمن لال کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے ہے۔
چمن لا ل کا کہنا ہے لاہور شہر میں بابری مسجد کے واقع کے وقت ہندو براداری کے قریباً چار ہزار سے زیادہ لوگ مقیم تھے۔بابری مسجد کے واقع کے بعد ہندو کمیونٹی اپنی جان و مال کی حفاطت کو مد نظر رکھتے ہوئےپنجاب کے مختلف اضلاع میں ہجرت کر گئے تھے۔ بابری مسجد کے واقعے بعد لاہور میں موجود چار برے شمشان گھاٹ بند ہو گئے۔بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہندو اپنے پیاروں کی آخری رسومات کے لئے ضلع اٹک کے قریب شمشان گھاٹ لے کر جاتے تھے۔ لاہور شہر میں ڈھونڈنے سے مشکل سے چند ہندو گھرانےملیں گے ۔
لاہور شہر کے رہائشی دھرم سنگھ کا خاندان 2009 میں پشاور سے ہجرت کر کے لاہور میں مقیم ہے۔فیروز پور روڈ کے مشہور اچھرہ بازا ر میں حکمت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔لاہور شمشان گھاٹ کے بارے میں جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا چونکہ ننکانہ صاحب میں سکھوں کا قدیم شمشان گھاٹ موجود ہے تو سب سکھ کیمونٹی اپنے پیاروں کی ‘خری رسومات کےلئے وہاں جاتے ہیں۔اس کی ایک بری وجہ وہاں تمام ترسہولیات ہیں اس کے علاوہ غمزدہ فیملی کو کوئی مالی اخراجات بھی اٹھانے پڑتے وہاں پر قائم سیکھوں کی کمیٹی تمام تر اخراجات اٹھاتے ہیں۔انکا کہنا ہے 2009سے پشاور سے ہجرت کر کے قریباً 34 سے 40 سکھ خاندان لاہور میں آ کر آباد ہوئے ہیں ۔پشاور سے لاہور کی طرف سکھ برادری عدم تحفظ کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہے۔ لاہور شہر میں سکھوں کی آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے اس لئے ہم چاہ رہے ہیں کہ لاہور شمشان گھاٹ کو بھی سکھ کمیونٹی کے مذہبی عقاید کے مطابق بنانےکی کوشش کریں ۔
سکھ کمیونٹی کا لاہور شمشان گھاٹ کے بارے میں تحفظات
انکےمطابق شمشان گھاٹ کا مقصد صرف اپنے پیاروں کا انتم سنسکار نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عبادات کا ایک طویل سلسلہ بھی ہوتا ہے ۔ مہندار پال سنگھ نے بتایا کہ سکھوں کے عقیدے کے مطابق اپکو آسان مثال دیتا ہوں کہ شمشان گھاٹ میں صرف مردے کی آخر ی رسوما ت ادا کی جاتیں ہیں جیسے کے مسلم مذہب میں قبر میںتدفین کی جاتی ہے ۔مسلمانوں میں نمازجنازہ کسی اور مقام پر پڑھا کر قبرستان میں تدفین کےلئے لےکر جاتے ہیں ۔ سکھوں میں گوردوارے میں عبادت کر کے آخری رسومات کے کے لئے شمشان گھاٹ میں سنسکار کے لئے لے جایا جاتا ہے۔لاہور میں بننے والے شمشان گھاٹ کے قریب کوئی بھی گوردوارہ نہیں ہے جبکہ یہ سہولت ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ ہمیں میسر ہے۔لاہور کے شمشان گھاٹ کے بارے میں ایک مثال دوں گا کہ ’جیسے ریگستان میں شوگر مل لگا دی گئی ہو‘ یعنی گنا کی پیدوار ہے ہی نہیں اور شوگر مل لگا دی۔دھرم سنگھ کا کہنا ہے کہ لاہور شمشان گھاٹ جانے کے لئے سب سے بڑا مسئلہ وہاں سڑک کا نہ ہونا ہے۔حال ہی میں ہم نے وہاں پودے لگائے ہیں مگر وہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔دوسرا بڑا مسئلہ وہاں کمروں کا ہے۔شمشان گھاٹ میں جب آخری رسومات ادا کی جاتیں ہیں تو وہی عزیز و اکارب عبادت کرتے ہیں ۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے چمن لال کہتے ہیں اگر مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارےمذہب میں روح کے پرواز کر جانے کے بعد وجودبے معنی ہو جاتا ہے ہاں البتہ مذہب میں انتم سنسکار( آخری رسومات) کو سب زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔اس کے بعد جس جگہ رہ رہے ہوں وہاں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے پیاروں کو دفنا بھی سکتے ہیں۔تیسرا طریقہ دریا جہاں پانی کا بہاو زیادہ ہو اس جگہ بہا سکتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں ہندوں برادری کی تعداد زیادہ ہے مگر وہاں کوئی بھی شمشان گھاٹ موجود نہیں ہے۔میرا تعلق رحیم یا رخان سے ہے وہاں یہ رواج ہے کہ ہندو کمیونٹی کا اگر کوئی فرد وفات پا گیا ہے تو ہم اس کو قبرستان میں دفن کرتے ہیں۔ہمارے آباو اجداد کے مطابق جہاں ہندو برادری مقیم ہے وہاں ابتدسے ہی کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں تھا تو انہوں نے مردوں کو دفنا شروع کر دیا۔مشکل وہاں پیش آتی جب کوئی وصیت کر دے کہ اس کا انتم سنسکار کرنے کے بعد اسکی راکھ کو دیائے گنگا میں بہائے تب ہماری کمیونٹی کے لوگ کسی کھلی جگہ جا کر انتم سنسکار تو کرتے تھے مگر بھارت کا ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی استیاں(ہڈیوں کی راکھ) کئی کئی سال مندوں اور گھروں میں پڑی رہتی تھیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس انتم سنسکار مذہبی روایت کو چھوڑ کر اب دفن کرنے کو ہی زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ خستہ حالی کا شکار حکومتی ادارے خاموش
ننکانہ صاحب کا شمشان گھاٹ پنجاب میں سب سے پرانا شمشاد گھاٹ ہے جو کہ اب خستہ حالی کا شکار ہے۔2016 اور 2017 میں شمشان گھاٹ کی مرمت اور اس کے ساتھ ایک اور نیا سمادی تعمیر کرنے کے لئے حکومت نے تینڈر دیا جو کہ منظور بھی ہوا۔تحریک انصاف کے سابق پارلیمانی سیکرٹری مہندار پال سنگھ نے شمشان گھاٹ کی تعمیر کے لئے اقدامات بھی کئے مگر حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو پایا۔2022 میں ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ کےلئے حکومت نے 14ملین کی رقم اس پروجیکٹ کے لئے مختص کی مگر سابق حکومت کے ختم ہونےکے ساتھ یہ کام بھی روک گیا۔
ہندو کمیونٹی کے مطابق قیام پاکستان کےبعدلاہو رمیں4 شمشان گھاٹ ہونے کے آثار ملتے ہیں ۔ان میں سے ایک ٹھوکر نیاز بیگ بھبھو تیاں ،دوسرا ماڈل ٹاؤن،تیسرا گاو شالا دریائے راوی کے قریب اور چوتھا مڑیاں وفاقی کالونی کنال روڈ کے علاقے میں تھا۔ مڑیاں وفاقی کالونی والا شمشاد گھاٹ کرسچین کمیونٹی کا قبرستان بنا دیا گیا ہے مگر آج بھی وہاں شمشان گھاٹ کے اثار موجود ہیں۔ اے حمید کی کتاب’ لاہور لاہور اے ‘ میں لکھاہوا ہے کہ ’لاہور میں بیرون ٹکسالی دروازے والا شمشان گھاٹ بہت مشہور تھا۔یہ شمشان گھاٹ یا شمشان بھومی ویام شالہ کے پاس ہی تھا۔یہاں ہندو سکھ اپنے عزیز وا قارب کی ارتھیاں لا کر سپرد آتش کرتے تھے۔موہنی رواڈ ویام شالہ کے قریب ہی تھی‘۔ کتاب میں ایک اور جگہ انہوں نے لکھا کہ لاہور کے باہر تین چار شمشان گھر تھے جہاں ہندو سکھ اپنے مردوں کو جلاتے تھے۔ بعض ہندو ا ن ہڈیوں کو دریائے راوی میں بہا دیتے تھے اور بعض امیر لوگ ان ہڈیوں کو بنارس جا کر گنگا کی لہروں کے سپرد کر دیتے تھے‘۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے سماجی تنظیم ہندو سدر سبھاکے صدر امرناتھ رندھاوا سے پوچھا گیا کہ قیام پاکستان کے بعد ہندوؤں برادری کون سا شمشان گھاٹ استعمال کرتی تھی؟۔انکا کہنا ہے کہ دریائے راوی کے قریب گاؤ شالا میں ہندوؤں برادری اپنے مرنے والوں کا انتم سنسکار کرتی تھی ۔بعدازاں مسلمان کمیونٹی کی جانب سے چیتا کے جلنے کا عمل چونکہ دو روز تک جاری رہتا تھا تو اعتراضات کی وجہ سے اس شمشاد گھاٹ کو استعمال کرنا بند کر دیا جبکہ اب اس شمشاد گھاٹ کا کوئی بھی نام ونشان نہیں ہے۔ 58سالہ امرناتھ رندھاوا پاکستان مندر مینجمنٹ کمیٹی کے ممبر ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ ہندو برادری زیادہ تر اپنے پیاروں کو بالمیکی قبرستان میں دفن کرتے ہیں۔ لاہور میں جی ٹی روڈ (گرینڈ ٹرنک روڈ) پر واقع یو ای ٹی یونیورسٹی کے بالکل سامنے بدھو اوا بالمیکی قبرستان موجود ہے ۔ہندو برادری کا لاہور شہر میں یہ واحد قبرستان جوکہ ماضی میں ایک متنازعہ قبرستان بھی رہا ہے ۔
مقامی ہندوؤں کے مطابق یہ قبرستان 1830 سے اسی جگہ موجود ہے اور یہاں ہندو برادری اپنے مردوں کو دفن کرتی آ رہی ہے ۔بالمیکی شہر خاموشاں کئی کہانیاں اپنے اندر صدیوں کی داستانیں سمیٹے ہوئے ہیں۔
یہ رپورٹ وVOICEPK اور IRADA کی جانب سے کیا گیا ہے-