اگست 3-2023

انیلہ محمود


مئی 2023 صحافیوں کے لیے بد ترین مہینے کے طور پہ سامنے آیا ہے ۔

صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے فریڈم نیٹورک(freedom network)  کی جاری کردہ ماہانہ رپورٹ کے مطابق دو صحافی حملوں کے خطرے سے بال بال بچ گئے ، جبکہ صحافیوں کو مختلف قسم کے 15 حملوں کا سامنا کرنا پڑا- ایک صحافی  کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، دو کو حراست میں لے لیا گیا، ایک کو اغوا کر لیا گیا جبکہ ایک ریاستی املاک پر حملے کے الزام میں گرفتاکیا گیا ۔

 مئی 2023 کے دوران صحافیوں کے خلاف دھمکیوں کے مختلف زمروں کے کل 24 کیسز کی نگرانی اور رپورٹ کیا گیا ہے یہ ہے مجموعی صورتحال اور اگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے اس خطرناک ترین شعبے میں ہیں تو پھر سوچیے ان پہ کیا گزرتی ہوگی ؟

کیونکہ پاکستان میں میڈیا پر قدغن اور دیگر معاملات کے حوالے سے بیرونی دنیا میں کوئی اچھا تاثر نہیں پایا جاتاہے اور پاکستان میڈیا کے لحاظ سے خطرناک ترین گردانا جاتا ہے اور کم معاوضہ ادائیگی کے حوالے سے بھی مشہور ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا انتخاب زیادہ تر شوقیہ افراد کرتے ہیں یا پھر با امر مجبوری ملازمت کرنے والے افراد میڈیا کے دیگر شعبوں جیسے پریس مین،این ایل ای یا دیگر چھوٹی یا کم تنخواہ کی ملازمتیں اختیار کرتے ہیں۔

پاکستان میں پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے مختلف ذرائع سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے بڑے میڈیا چینلز اور اخبارات میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے 50کے لگ بھگ افراد ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر کیمرہ مین یا دیگر ٹیکنیکل کام کرنے والے افراد ہیں، رپورٹرز ، ایڈیٹرز یا این ایل ای کے طور پر فرائض دینے والے اقلیتی افراد کی تعداد تو انتہائی کم ہے۔

کیا میڈیا میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی زیادہ تعداد نہ ہونے کی وجہ ان کے لئے مواقع کی کمی ہے ، اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے میڈیا پرسنز کو تنخواہوں اور دیگر مراعات کے حوالے سے بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟مخصوص کمیونٹی سے تعلق رکھنے کی بنا پر انہیں کام کے حوالے سے اور ساتھی ورکرز کے ناقابل برداشت رویوں کو بھی سہنا پڑتا ہے؟اقلیتی میڈیا پرسنز کو درپیش مسائل میں کمی یا خاتمے کے لئے کیا میڈیا کے اداروں میں پالیسی موجود ہے یا اس بابت پالیسی بنانے اور قانون سازی کرنے سے مسائل کا حل ممکن ہے؟

یہ جاننے کے لئے اقلیتی میڈیا پرسنز اور ذمہ داران سے بات کی گئی کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے صحافی سمیر اجمل کا تعلق ملتان سے ہے،یہ گزشتہ13سال سےصحافت کر رہے ہیں ان کی عمر 46سال ہے،-

آج کل روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو زیادہ مسائل اور کرائسز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر وہ کسی حساس ایشو جیسے توہین مذہب کے کیسز کے حوالے سے رپورٹ کریں تو انہیں اکثریت کی جانب سے آنے والے ردعمل کا ڈر ہوتا ہے اور اگر وہ اپنی کمیونٹی کے حوالے سے کوئی خبر دیں جیسے کہ کسی قبضہ گروپ یا منشیات فروخت کرنے والوں بارے تو کمیونٹی کی جانب سے انہیں نشانہ بنایا جاتاہے سمیر اجمل نے بتایا ہے کہ نیشنل میڈیا میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے انہوں نے بتایا کہ روزنامہ خبریں جو کہ پاکستان کا ایک بڑا اخبار ہے اس میں انہوں نے آٹھ سال فرائض سرانجام دئیے ہیں ا س اخبار میں واحد صحافی تھے جن کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے جب انہوں نے یہ ادارہ چھوڑا تھا تو اس کے بعد اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص اس اخبار میں بھرتی نہیں کیا گیا اور اب وہ جس اخبار میں کام کر رہے ہیں اس میں بھی بطور رپورٹر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے وہ واحد پرسن ہیں۔

سمیر نے مزید بتایا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے میڈیا پرسنز کو دفتر کی جانب سے زیادہ اہم ذمہ داریاں دینے سے گریز کیا جاتاہے۔ اہم بیٹ یا محکمہ جات اکثریت سے تعلق رکھنے والے رپورٹرز کو دئیے جاتے ہیں اس لئے ان کی تنخواہ بھی زیادہ ہوتی ہے اور وہ محکموں سے اشتہارات بھی لیتے ہیں جن سے ان کو کمیشن ملتا ہے مگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ مواقع نہیں دئیے جاتے۔

 دفتر میں کھانے پینے اور دیگر معاملات کے حوالے سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک تو نہیں برتا جاتا مگر انہیں اپنے طور پر از خود ہی محتاط رہنا پڑتا ہے کیونکہ پریانتھا کمارا (سری لنکن شہری جسے سیالکوٹ میں ہجوم نے قتل کردیا تھا)کے واقعہ کے بعد اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ہر جگہ خوف زدہ رہتے ہیں۔

میڈیا ہائوسز اگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ملازمت میں کوٹہ مختص کردیں یا پھر اقلیت کو بیٹ کا درجہ دے دیا جائے تو اقلیتوں کے مسائل میڈیا کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں۔

ہرمیت سنگھ صحافی اور اینکر ہیں۔ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ڈسٹرکٹ شانگلہ سے ہے،2017 سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور ان کی عمر36سال ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ میں نے ریڈیواوراخبارات میں کام کیا ہے اوراب ٹیلی ویژن میں کام کر رہا ہوں،میں اپنے آپ کو کچھ خوش قسمت نہیں بلکہ زیادہ خوش قسمت سمجھتا ہوں کیونکہ یہاں کہ جتنے بھی میڈیا میں جو کام میں نے کیا ہے اور مختلف ڈیپارٹمنٹ میں کیا ہے تو لوگ مجھے اچھے ملے ہیں۔ ان کا رویہ بڑیاچھا ہوتا اور رسپیکٹ ملتی ہے اور کھانے پینے کے حوالے سے میں اپنے چینل کے حوالے سے بات کروں تو یقین مانیئے کہ پورا مینیو جو ہے اس میں بھی میری خاطرتبدیلی کرلیتے ہیں بہرحال بہت خیال رکھا جارہا ہے۔ باقی آپ نے جو بات کی کہ تنخواہوں کا مسئلہ ہے تو دیکھئے جو صحافت ہم کررہے ہیں ناں اس میں کمائی نہیں ہے جو ہماری سوچ ہوتی ہے کہ ہم کہیں جائیں گے اور لاکھوں کروڑوں کمائیں گے یہاں تو کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں چھ چھ مہینے ،ہمیں یاد ہے کہ کرونا کے ٹائم پر ہمیں سیلری نہیں ملتی تھی اور بڑے برے حالات ہوتے تھے۔ ادھار لیکر ٹائم پاس کررہے تھے۔

مسائل تو ہیں پاکستانی میڈیا کو بہت سارے مسائل ہیں چاہے وہ تنخواہوں کی صورت میں ہوں یا قدغنیں جس طریقے سے لگتی ہیں وہ پابندیاں لگی ہیں ہم سب کے اوپر وہ آپ کو پتا ہے کہ ایک بڑی پارٹی کے لیڈر کا نام آپ نہیں لے سکتے اس کے حوالے سے آپ خبر نہیں چلا سکتے اسی طرح بہت ساری ایسی خبریں ہوتی ہیں جس پر پہلے سے میڈیا مالک کو کہاجاتا ہے کہ صحافیوں کو آپ نے لگام دینی ہے لگام میں تو ہم ہیں۔  اور تنخواہوں کے حوالے سے جس قسم کے مسائل کا سامنا اکثریتی صحافیوں کو کرنا پڑتا ہے ہم سب کو کرنا پڑتا ہے۔ اس میں کیا اقلیت کیا اکثریت مالک کی مرضی ہے اگر وہ سیلری دیتا ہے تو دے دیتاہے نہیں دیتا تو نہیں دیتا ۔

آپ کو پتا ہے کہ باہر دنیا میں پاکستان کے حوالے سے ہمارے اقلیتوں کا جب آپ نام لیتے ہیں تو لوگ خوف کھا جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان میں تو بڑے مسائل ہیں کیسے آپ زندہ رہتے ہیں آپ کی بچیوں کو تو اغوا کیا جاتا ہے بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے باہر دنیا میں بہت برا امیج ہے۔مگر میری خواہش تھی کہ میں پاکستان کے لئے کام کروں اور اپنی مینارٹیز کو ریپریذنٹ کروں پاکستان کو ریپریذنڈٹ کروں۔ تو میں نے میڈیا اس لئے جوائن کیا۔

اگر میں اپنی سکھ برادری کی بات کروں تو آپ کو پتا ہے کہ سکھ جرنلسٹ میں ہی ہوں اس سے قبل میرے بڑے بھائی تھے ۔ بہرحال پاکستان میں اقلیتیں دبی ہوئی ہیں اور خوف میں مبتلا ہے۔انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ مین سٹریم میڈیا پر آتے ہیں تو انھیں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ٹارگٹ بھی جلدی ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مینارٹی سامنے نہیں آتی اور مسائل کی آپ نے بات کی تو بے تحاشہ مسائل ہیں مینارٹی کے، آپ یہ اندازہ لگا لیں کہ بنیادی چیزوں سے محروم رکھا ہے۔

پہلے تو ووٹ کا حق ہم سے چھین لیا گیا۔ سلیکٹیڈ لوگوں کو ہمارا لیڈر بنا کر پیش کیاجاتاہے یا نمائندہ بنا کر چاہے وہ بلدیاتی الیکشن ہوں یا ایم این ایز کے ہوں یا ایم پی ایز کے ہوں یا سینیٹرز کے ہوں تو اس میں ہمیں تو ووٹ کا حق حاصل نہیں ہے۔ اور کوٹے کی میں بات کروں تو مینارٹی کا جو کوٹہ ہے وہ مختلف ضلعوں  میں کیسے بیچا جارہا ہے وہ بھی آپ کو پتا ہے۔میڈیا میںکوئی کوٹہ نہیں ہے اس لئے مواقع بھی نہیں ہیں۔

 حالانکہ ہمارے مینارٹی کی بات کی جائے تو ہم وہ لوگ ہیں کہ جواس مٹی کے سچے وفادارہیں۔ ہم نے اپنے ملک کے ساتھ وفاداری کی ہے  ہم نے اپنی مٹی نہیں چھوڑی ہے ہمارے پاس ہندوستان جانے کا آپشن تھا ،سیو زون تھا ہمارے لئے مگر ہم نے کہا نہیں ہمارے لئے قول فعل جو قائداعظم صاحب کا تھا ہمیں اس پر یقین ہے مگر مینارٹی کے حوالے سے جو مسائل ہیں وہ بے تحاشہ ہیں انتم سنسکار کے لئے پشاور جیسے علاقوں میں جگہ نہیں ہے شمشان گھاٹ نہیں ہے۔ بہت سارے علاقوں میں گردوارے نہیں ہیں۔

اسی طرح مندروں کو بنانے کے لئے بھی آپ کو پتاہے کہ کیا کیا مسائل ہوتے ہیں۔ لوگ اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر ایمان کا خطرہ بھی ان کو ہوجاتا ہے، حالانکہ ہمیں دیکھیں کہ بائیس چوبیس کروڑ مسلمانوں میں سے ایک کروڑ مینارٹی ہوں گے ہمارے ایمان کو خطرہ نہیں ہوا مگر انھیں ہوجاتا ہے۔بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جس پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

میڈیا میں اقلیتوں کے کم آنے کی وجہ آپ کو پتا ہے کہ بے تحاشہ سکھوں کو پشاور میں ٹارگٹ کیا گیا ہے ابھی تک وہ نامعلوم نامعلوم ہی رہے ہیں۔ خوف ہے سکھوں میں اور وہ ڈر ڈر کے اپنے کاموں میں جاتے ہیں۔ دکانوں میں کام کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم سکھوں کی شناخت کرنا بہت آسان ہے۔ ریاست نے اس خوف کو کلیئر کرنا ہے ٹیلی ویژن کی طرف لوگوں کو لیکر آنا ہے۔ میری کوئی سفارش بھی نہیں ہے مگر اس کے باوجود میں ڈٹ کر کھڑا ہوں۔ مسائل کو فیس کررہا ہوں۔ صرف ایک ہی خواہش ہے کہ پاکستان کو ریپریذنٹ کروں چاہے وہ انٹرنیشنل میڈیا ہو یا لوکل میڈیا ہو تاکہ پاکستان کا اچھا چہرہ ، مثبت چہرہ باہر کی دنیا کی طرف جائے۔

 بہر حال بہت سارے مسائل ہیں ٣٢١جس کا ہم سب کو سامنا ہے۔ حل کے لئے کوشش کررہے ہیں آوازاپنی بلند کرتے ہیں۔ مگر شاید اس وقت ایوان بالا میں بیٹھے جو لوگ ہیں تو ان کی خواہش صرف اقتدار کی کرسی ہے اور اپنی نئی نسلوں کو کیسے فیض یاب کرانا ہے۔ وہ آپ کو بھی معلوم ہے ہمیں بھی معلوم ہے۔ باقی چاہے وہ میجارٹی ہے یا مینارٹی ہے ان کے حقوق بارے ریاست کا جو سوتیلا پن ہے وہ تو اب کھل کر سامنے آرہا ہے ان ساری چیزوں کو ایڈریس کرنا ہوگا، مینارٹی کو ایک سیو زون دینا ہو گا کیونکہ مینارٹی ملکی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے۔ میرے خیال میں دنیا میں جہاں جہاں مینارٹی سیو ہے اس ملک کی دنیا تعریف کرتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میں نے ریڈیواوراخبارات میں کام کیا ہے اوراب ٹیلی ویژن میں کام کر رہا ہوں،میں اپنے آپ کو کچھ خوش قسمت نہیں بلکہ زیادہ خوش قسمت سمجھتا ہوں کیونکہ یہاں کہ جتنے بھی میڈیا میں جو کام میں نے کیا ہے اور مختلف ڈیپارٹمنٹ میں کیا ہے تو لوگ مجھے اچھے ملے ہیں۔

ان کا رویہ بڑیاچھا ہوتا اور رسپیکٹ ملتی ہے اور کھانے پینے کے حوالے سے میں اپنے چینل کے حوالے سے بات کروں تو یقین مانیئے کہ پورا مینیو جو ہے اس میں بھی میری خاطرتبدیلی کرلیتے ہیں بہرحال بہت خیال رکھا جارہا ہے۔ باقی آپ نے جو بات کی کہ تنخواہوں کا مسئلہ ہے تو دیکھئے جو صحافت ہم کررہے ہیں ناں اس میں کمائی نہیں ہے جو ہماری سوچ ہوتی ہے کہ ہم کہیں جائیں گے اور لاکھوں کروڑوں کمائیں گے یہاں تو کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں چھ چھ مہینے ،ہمیں یاد ہے کہ کرونا کے ٹائم پر ہمیں سیلری نہیں ملتی تھی اور بڑے برے حالات ہوتے تھے۔ ادھار لیکر ٹائم پاس کررہے تھے۔

 حالانکہ ہمارے مینارٹی کی بات کی جائے تو ہم وہ لوگ ہیں کہ جو اس مٹی کے سچے وفادارہیں۔ ہم نے اپنے ملک کے ساتھ وفاداری کی ہے  ہم نے اپنی مٹی نہیں چھوڑی ہے ہمارے پاس ہندوستان جانے کا آپشن تھا ،سیو زون تھا ہمارے لئے مگر ہم نے کہا نہیں ہمارے لئے قول فعل جو قائداعظم صاحب کا تھا ہمیں اس پر یقین ہے مگر مینارٹی کے حوالے سے جو مسائل ہیں وہ بے تحاشہ ہیں انتم سنسکار کے لئے پشاور جیسے علاقوں میں جگہ نہیں ہے شمشان گھاٹ نہیں ہے۔ بہت سارے علاقوں میں گردوارے نہیں ہیں۔ اسی طرح مندروں کو بنانے کے لئے بھی آپ کو پتاہے کہ کیا کیا مسائل ہوتے ہیں۔

لوگ اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر ایمان کا خطرہ بھی ان کو ہوجاتا ہے، حالانکہ ہمیں دیکھیں کہ بائیس چوبیس کروڑ مسلمانوں میں سے ایک کروڑ مینارٹی ہوں گے ہمارے ایمان کو خطرہ نہیں ہوا مگر انھیں ہوجاتا ہے۔بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جس پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

میڈیا میں اقلیتوں کے کم آنے کی وجہ آپ کو پتا ہے کہ بے تحاشہ سکھوں کو پشاور میں ٹارگٹ کیا گیا ہے ابھی تک وہ نامعلوم نامعلوم ہی رہے ہیں۔ خوف ہے سکھوں میں اور وہ ڈر ڈر کے اپنے کاموں میں جاتے ہیں۔ دکانوں میں کام کرتے ہیں۔

شازیہ مشتاق سب ایڈیٹر ہیں ان کا تعلق لاہور سے ہے عرصہ آٹھ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں،ان کی عمر 37سال ہے –

 اور ریڈیو پاکستان میں فرائض انجام دے رہی ہیں انہوں نے بتایا کہ اقلیتی میڈیا پرسنز اپنے ادارے کی پالیسی کے پابند ہیں وہ اپنے طور پر کوئی بھی سٹوری نہیں لا سکتے،اگر وہ اپنی کمیونٹی کے کسی مسئلے کی نشاندہی کرنا چاہیں چاہے وہ سماجی ہو یا مذہبی میڈیا ہائوسز اسے پبلش کرنے یا آن ائیر کرنے کو تیار نہیں ہوتے کیونکہ یہ ان کے لئے بھی بڑا رسک ہوتا ہے ،کہ کمیونٹی کا کوئی مسئلہ بتا دیں کہ فلاں جگہ مذہب کی بنیاد پر تشدد ہوا ہے تو ان کے نزدیک اس سے ملک کا سافٹ امیج متاثر ہوتا ہے۔

میڈیا ہائوس کے بند ہونے اور صحافی کی جان کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔اقلیتی صحافی سچ نہیں بول پاتے میڈیا ہائوس کے پابند ہوتے ہیں،میں سمجھتی ہوں کہ جب سچ نہیں بول سکتے تو اپنے پیشے سے انصاف بھی نہیں کر سکتے۔جہاں تک تنخواہوں کی بات ہے تو سرکاری اداروں میں مذہبی بنیاد پر کو ئی تعصب نہیں برتا جاتا سب کو ان کے کام اور گریڈ کے حساب سے تنخواہ دی جاتی ہے،فیلڈ اور کام کے دوران عام اقلیتی لوگوں کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ہائی لیول پر کم discriminationکی جاتی ہے کیونکہ سب با شعور لوگ ہوتے ہیں اگر کسی کے دل میں بھید بھائو ہو بھی تووہ ظاہر نہیں کرتے۔

ہم جہاں کام کر رہے ہوتے ہیں وہاں ہزاروں بار یہ بات کی جاتی ہے کہ آپ مسلمان ہو جائیں ،اب یہ ایسا حساس معاملہ ہے کہ اس پر کھل کر جواب بھی نہیں دیا جا سکتا ،اس لئے اسکا یہ حل نکالا ہے کہ سن کے نظر انداز کر دیں۔اقلیتوں کے شعبہ صحافت میں کم تعداد میں آنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں آگے آنے ہی نہیں دیا جاتا،دوسری بات یہ کہ اقلیتیں پاکستان میں رہ بھی کم گئی ہیں۔اس کے علاوہ صحافت میں پیسہ بھی کم ہے،آپ سچ نہیں بول سکتے لکھ نہیں سکتے تو پھر اس شعبے میں آنے کا کیا فائدہ،البتہ سرکاری میڈیا اداروں میں کوٹہ سسٹم ہے اس میںکچھ لوگ بھرتی ہو جاتے ہیں،افسوسناک بات یہ ہے کہ اقلیتوں کو جنرل سیٹوں پر ملازمت نہیں دی جاتی صرف کوٹہ کی چند نشستوں پر ہی بھرتی کیا جاتا ہے،کچھ اکثریتی لوک ایسے بھی ہیں جو اقلیتوں کو قابل ہونے کے باوجود افسر کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے ۔

جب میں یہاں آئی تھی اور میری جاب کنفرم ہو گئی تو کچھ ایسے لوگ تھے جنہیں اس بات کا بہت دکھ ہوا حالانکہ وہ پہلے میرے دوست تھے،انہوں نے اس بات کی شکایت کی کہ ایک کرسچن لڑکی کو کیوں افسر لگا دیا ہے،انہیں بتایا گیا کہ یہ اقلیتی نشست پر آئی ہیں اور اس نشست پر صرف اقلیتی ارکان ہی آ سکتے ہیں تو پھر ان کی سمجھ میں بات آئی۔ادارے جتنی بھی پالیسیاں بنا لیں جب تک سچ کو برداشت کرنے کی ہمت جنرل پبلک  اور اکثریت میں نہیں ہو گی کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی،ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ جابز کے مواقع بڑھائے جائیں کوٹہ سسٹم زیادہ کیا جائے،سرکاری اور پرائیویٹ دونوں میڈیا میں اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ اقلیتوں کا جتنا کوٹہ رکھا گیا ہے کیا اتنے ہی اقلیتی  افراد بھرتی کئے جا رہے ہیں۔

طارق جوزف پریس منیجر ہیں ان کا تعلق ملتان سے ہے ،23سال سے میڈیا میں ہیں ان کی عمر پچاس سال ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں موجود کسی بھی شخص یا گروہ کو اس کے عقائد، رنگ، نسل، زبان، عمر، جنس یا کسی اور تعصب کی بنا پر یا اس کا ایک خاص عقیدہ رنگ، نسل، زبان یا جنس نہ رکھنے کے سبب لوگوں کا اس کی جانب امتیازی سلوک برتنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ ڈسکریمینیشن نہیں ہونا چاہئے مگر ہوتا ہے۔کولیگز اور دیگر سٹاف کا رویہ بظاہر تو مناسب ہی ہوتا ہے ،مگر ان کے چہرے کے تاثرات سے کسی حد تک ناپسندیدگی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔

اقلیتوں کو اکثریت کے مقابلے میں کم اہمیت دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ میڈیا پروفیشن میں اقلیتوں کی کم تعداد ہے،میڈیا میں بھی ملازمتوں کا مخصوص کوٹہ ہونا چاہئے تاکہ اقلیتوں کے مسائل کم ہوں۔اس حوالے سے میڈیا گروپس کو پالیسی بنانی چاہئے۔

 نسیم جیمز فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ان کاتعلق کوئٹہ سے ہےان کی عمر 56 سال ہے-

انہوں نے بتایا کہ میں تقریبا ٢٨سال سے مختلف اخبارات کے ساتھ منسلک رہا ہوں جس میں ایکسپریس، باخبر، ہمت، خبردار، مختلف اخبارات ہیں جن میں میں بطورفوٹو گرافر اپنے فرائض سرانجام دیتا رہا ہوں۔ آفس، فیلڈ میں اور تنخواہوں کے حوالے سے ہمیں ڈسکریمینیشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈسکریمینیشن کا بہت زیادہ امتیاز پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں جتنے بھی لوگ کام کررہے ہیں تو ان میں واضح فرق ہے اور دوسری بات کولیگز کے رویئے میں ہمیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا نہ کھانے میں نہ پینے میں نہ میل جول میں کبھی اس طرح محسوس نہیں ہوا کہ ہم لوگ اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں ۔

صحافت میں جو اقلیتوں کی تعداد کم ہے اس کی بہت ساری وجوہات ہیں اس میں اقلیتوں کی تعلیم میں کمی بھی ہے اور پروفیشن جو ہے بہت مشکل ہے یہاں پر لوگ آنا پسند نہیں کرتے کیونکہ مشکلات بہت زیادہ ہیں تنخواہیں بہت کم ہیں۔ گزارہ کرنا بہت مشکل ہے تو زیادہ تر اقلیتوں کے لوگ یہاں پر کام کرنے سے گھبراتے ہیں یا نہیں کرسکتے یا گھر نہیں چلا سکتے۔

 میڈیا ورکرز چاہے وہ فیلڈ میں ہوں یا آفس میں ہوںان کامسئلہ تنخواہ ویج بورڈ کے مطابق نہ ہوناہے ۔تنخواہیں ویج بورڈ کے مطابق دی جائیں تاکہ میڈیا ورکر اپنا گھر چلا سکے اور مسائل کم سے کم ہوں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے اگر اس مسئلہ پر قابو پایا جائے تو اس سے بہت سارے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

میڈیا اداروں کو بالکل اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اقلیت کو بہت سارے مسائل درپیش ہیں اور سب اس سے واقف بھی ہیں۔ واقف ہوتے ہوئے بھی اس پر عمل نہیں ہوتا جیسے اقلیتوں کو سب سے بڑا مسئلہ ملازمتوں میں پانچ پرسنٹ کوٹے کا ہے وہ اکثر نہیں ملتا چھپا دیا جاتا ہے یہاں اس پر پوری طرح ورک نہیں ہوسکتا۔ قانون سازی بہت دفعہ ہوچکی ہے لیکن قانون سازی یہی ہے کہ جو قانون بن چکے ہیں

 اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔

 ندیم سنیل راج کیمرہ مین ہیں- ان کا تعلق راولپنڈی سےہے اور ان کی عمر چالیس سال ہے-

ان کا کہنا ہے کہ  میں 1996 سے 2003 تک پرنٹ میڈیا سے منسلک تھا 2003 سے میں نے الیکٹرانک میڈیا جوائن کیا پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے اندر میرا کوئی چاچا ماما تایا یا بھائی نہیں تھا میں نے بہت مشکل سے محنت کی اور اس مقام پہ پہنچا آج پاکستان کے ایک مشہور ٹی وی چینل کے ساتھ میں منسلک ہوں یہ سفر میرے لیے واقعی ہی بہت مشکل تھا اگر فیلڈ کی آپ بات کرتی ہیں تو جتنے مسئلے مسائل مجھے فیلڈ میں درپیش آئے میں بیان نہیں کر سکتا ۔ میرے میڈیا کارڈز کی ویریفکیشن کے لئے مجھے بہت مسئلے پیش آئے، مسئلوں کی وجہ سے مجھے بار بار تصدیق، گواہی کا سامنا کرنا پڑا مگر میں نے ہمت نہیں ہاری۔

 سب سے بڑا مسئلہ میرے مذہب کا آتا تھا کیونکہ میرا تعلق ہندو فیملی سے تھا، میرا نام ندیم سنیل ہے اکثر جب میں بات کرتا تھا دوستوں سے یا لوگوں سے تو ان کو بتاتا تھا کہ میرا تعلق ہندو فیملی سے ہے کچھ یار دوستوں نے تو مجھے ایپریشیٹ بھی کیا کہ یار صحافت ایک آزاد  پروفیشنل ہے آپ پاکستانی ہیں۔

 2014 میں میں ایک الیکٹرانک ٹی وی چینل کے ساتھ منسلک تھا میرے ٹیکنیکل ہیڈ سے میری کسی وجہ سے ایک چھوٹی سی ایک لڑائی ہوئی میرے ٹیکنیکل ہیڈ نے مجھے یہ دھمکی لگائی کہ جا اپنے نریندر مودی چچا کو جا کے بتا میرا کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا جب میں نے اپنے بیورو چیف سے بات کی تو انہوں نے اپنے اسسٹنٹ کو بولا کہ آپ ایک ای میل لکھو اور ہیڈ آفس فارورڈ کرو۔ آج وہ بیورو چیف ہم میں موجود نہیں وہ اللہ تعالی کو پیارے ہو گئے باقاعدہ انہوں نے ای میل کے اندر لکھا کہ ٹیکنیکل ہیڈ نے ندیم سنیل کو نریندر مودی کی دھمکی دی ہے اس پر میرا ٹیکنیکل تو ایک منٹ کے لئے بھی شرمندہ نہیں ہوا مگر پھر ظاہر ہے میں نے وہاں پہ جاب کرنی تھی تو مجھے ا ن سے دوبارہ راضی ہونا پڑا اور وہ ای میل آج بھی میرے پاس ہے۔

  آفس کے اندر بھی مسائل درپیش تو ہوتے ہیں خاص طور اس انسان کو جو کرسچن ہو یا ہندو فیملی سے تعلق رکھتا ہو کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے میں یپرابلم رہتی ہے ۔آفس کے اندر مجھے زیادہ تر ٹائم اکیلے میں ہی گزارنا پڑتا ہے آج مجھے 24 سے 25 سال ہو گئے ہیں اس فیلڈ کے اندر مگر آج تک مجھے سینئر کا لفظ نہیں دیا گیا بہرحال اس میں میرے مالک کی مرضی ہے ۔

اگر تنخواہوں کی بات کی جائے تو اس ٹائم اسلام آباد کے اندر تقریبا 43 ٹی وی چینل ہیں ان میں سے مر کے کچھ چار پانچ چینل ہیں جو ورکرز کا خیال رکھتے ہیں مگر باقی اگر آپ بات کریں تو وہ تو انسان کا خون تک نچوڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں جتنی محنت ہماری فیلڈ کے اندر کیمرا مین کرتے ہیں آپ مت پوچھیں کہ اور کوئی ڈیزگنیشن کرتا ہوگا آندھی طوفان بم بلاسٹ بارش فائرنگ جلسہ جلوس مار دھاڑ سب کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر افسوس جب تنخواہوں کی بات آتی ہے تو دو دو تین تین ماہ تنخواہیں نہیں ملتیں اس مہنگائی کے دور میں بہت مشکل سے گزارا ہو رہا ہے گورنمنٹ کا تو بجٹ آتا ہے ہر سال کے بعد مگر ہم پرائیویٹ جاب کرنے والوں کے لیے کوئی بجٹ نہیں ہوتا مرضی سے تنخواہیں دینا اپنی مرضی سے کام کروانا ۔

  اگر میڈیا کے اندر ادارے پالیسی بنائیں اور بن بھی جائے تو کبھی بھی مسئلے مسائل حل نہیں ہو سکتے وہ اس لیے کہ ہر چینل کے اندر دو سے تین سال بعد ایک بیورو چیف آتا ہے ایک ٹیکنیکل آتا ہے اور پالیسی چینج ہو جاتی ہے۔ رہی اقلیتوں کی بات تو یہ مسئلے مسائل کبھی حل نہیں ہو سکتے اگر گورنمنٹ بھی کوئی پالیسی بنانا چاہے بھی اس کے اندر کچھ لوگ ایسے بھیڑیے ہوتے ہیں جو اس کو مکمل نہیں ہونے دیتے ۔۔۔اللہ کرے کہ اقلیتوں کے بھی مسئلے مسائل حل ہوں جو خاص طور پر اس ٹائم پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کر رہے ہیں ۔۔ ہر سال انویسٹٹیگیشن تصدیق اور بہت سی چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے- 

وسیم کھوکھر کیمرہ مین ہیں ان کا تعلق سیالکوٹ ،اگوکی سے ہے ان کی عمر اڑتیس سال اور18سال سے میڈیا پروفیشن میں ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ تعلیم یافتہ افراد کو ترقی کرنے کے مواقع فراہم نہیں کئے جاتے۔ان کو نچلے درجے میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔تنخواہوں میں تو زیادہ فرق نہیں ہوتا ۔تنخواہ تو ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ویسے تو پڑھے لکھے کولیگز کے ساتھ میل جول کھانا پینا اچھا ہوتا ہے لیکن کم پڑھے لکھے یا مذہبی لیول پر آگاہی نہ رکھنے والوں کا رویہ کچھ ٹھیک نہیں ہوتا۔زیادہ تر کولیگز تو بہت اچھے ہیں لیکن چند ایک ایسے ہیںجو اقلیتی میڈیا ورکر کو اچھا نہیں سمجھتے۔

اقلیتوں کے میڈیا میں کم آنے کی مین وجہ یہ ہے کہ اقلیتوں کو مواقع کم فراہم کیے جاتے ہیں کہ وہ نہ صرف میڈیا میں بلکہ کسی اور اچھے آفس میں بھی کام کر سکیں۔کچھ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ کسی بھی شعبے میں آگے نہ بڑھ سکیں۔ان مسائل کا حل میری نظر میں تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ اقلیتی افراد کو بھی ترقی کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بھی اچھی زندگی بسر کر سکیں۔

میڈیا کے ہر اپارٹمنٹ میں اقلیتوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔میڈیا کے اداروں کی پالیسیز تو سب کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے لیکن میڈیا ورکرز کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ادارے میں ایک فیملی کی طرح کام کریں کسی کو مذہبی یا ذاتی نقصان نہ پہنچایا جائے تو تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

پون کمار صحافی ہیں اور سندھ  حیدر آباد میں ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں-

9سال سے میڈیا میں ہیں ان کی عمر30انہوں نے بتایا کہ ایک مخصوص کمیونٹی سے تعلق ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ آفس میں ڈسکریمینشن کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ گیارہ بارہ سال کے کیریئر میںتنخواہ میں اس طرح کی کوئی تعصب والی بات محسوس نہیں کی کیونکہ ہر ایک کی تنخواہ اس کے کام کے لحاظ سے مقررہے۔

آفس میں یہ نوٹ کیا گیا ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کنفرٹیبل فیل نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ کھایا پیاجائے۔ پھر بھی وہ کھاتے پیتے ہیں۔لیکن انکے تاثرات دیکھ کر صاف محسوس کیا جاسکتاہے کہ انہیں اچھا نہیں لگ رہا، اس کے پیچھے ان کی ڈسکریمینیشن ایگزسٹ کرتی ہے ظاہر سی بات ہے اس کے پیچھے ان کا وہ ماحول ہے جس میں ان کی پرورش ہوتی ہے انہیں اقلیتوں کو خود سے کمتر سمجھنا سکھایا جاتا ہے۔

اقلیتی کمیونٹی پنجاب یا کے پی میں کم ملے گی آپ کو جبکہ سندھ میں سب سے زیادہ یہ لوگ جرنلزم کررہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں اور خود بھی محسوس کرتا ہوں کہ سندھ میں فیوڈل سسٹم ہے جس کی وجہ سے چیلنجز بھی زیادہ ہیں اس لئے بھی میڈیا کے شعبے میں اقلیتوں کی تعداد کم ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مسائل کا حل یہی ہے کہ تمام فایتھ لعادعرس کو اکٹھا کیا جائے اور پروگریسو سوسائٹی بنانے کے لئے کوشش کی جائیتا کہ ان تفرقات کو کم کیا جا سکے۔بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کرنے والے لوگ آگے آئیں جو میڈیا مالکان اور وہاں کام کرنے والوں کو ٹریننگ دے سکیں کہ اقلیتوں کے ساتھ کیسا رویہ ہونا چاہئے اور انہیں کام کرنے کے لئے ایک مناسب ماحول فراہم کرنے میں معاونت کریں۔ بالکل میں سمجھتا ہوں کہ اس پر قانون سازی ہونی چاہئے اورلابنگ ہونی چاہئے کہ جو بھی اقلیتوں کے ایشوز ہیں میڈیا آرگنائزیشن میں انہیں کیسے ایڈریس کیا جائے کیسے سب ورکرز کے ساتھ مساوی رویہ رکھاجائے تا کہ فاصلوں کو کم کیا جاسکے۔

شمیم انجم  35سال سے اسلام آباد میں مقیم ہیں 35سال میڈیا میں ملازمت کی ان کی عمر 60سال ہے۔انہوں نے ریڈیو پاکستان میں مختلف عہدوں پر کام کیا-

 انہوں کہا کہ میں نے تو ریڈیو پاکستان ایک سرکاری ادارے میں کام کیا ہے اور وہاں پر تو رولز سب کے لیئے ایک جیسے ہوتے ہیں اور میرے ساتھ کسی اور مذہب کا کوئی ہمارا کولیگ رہا ہی نہیں کیونکہ ریڈیو جیسے بڑے میڈیا ہائوس میں اقلیتوں کے لئے کوئی مخصوص کوٹہ نہیں ہے۔ کوٹا سسٹم سپیشل پرسن کے لئے رکھا جاتا ہے ہمارے ہاں بھی ایک دو ورکرز اس کوٹے میں موجود تھے۔باقی اقلیتی ورکرز میرٹ پر ہی ہائر کئے جاتے ہیں۔ اور کمپئیرز یا ڈیلی اجرت کے اسٹاف میں خدمات انجام دینے والے افراد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے بھی تھے تو ان کے مسائل کو حل کیا جاتا تھا۔ مگر انفرادی رویے اچھے برے ضرور ہوتے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ میڈیا میں کام کرنے والے افراد جو اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں انکے لیے یکساں پالیسی رکھے اور امتیازی سلوک نہ ہو۔ صرف نچلے درجے کی ملازمتیں آفر نہ کی جائیں تاکہ وہ بھی اینکر پرسن یا پھر اپنی منشا کے مطابق نام کما سکیں۔


This article has been produced in collaboration with IRADA.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here