ستمپبر 4 -2023
انیلہ محمود
پاکستان کے آئین میں خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق کا ذکر ہے اور ایک شہری کی حیثیت سے ان کے اور مسلمان شہریوں کے حقوق میں کوئی فرق نہیں ہے۔
19جون2014 کوسپریم کورٹ نے اقلیتوں کے مسائل دور کرنے کیلئے مینارٹی کمیشن کے قیام کا تاریخی فیصلہ دیا۔ اس وقت قومی سطح پر محروم وکمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ کیلئے چار کمیشن قائم ہو چکے ہیں۔مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ کمیشن فعال طریقے سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
اسی حوالے سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ نیشنل مینارٹی کمیشن کا کیا کردار ہے اور کس حد تک فعال ہے؟
پیٹر جیکب نے نیشنل مینارٹی کمیشن کی تشکیل اور فعالیت کے بارے میں آگاہی دی- اس کی کارروائی کے بارےمیں وہ جانکاری رکھتےہیں کیوں کہ انھوں نے اسے قریب سے دیکھا بھی ہے اور وہ اس کی میٹنگز میں بھی شامل رہے ہیں-
“پا کستان میں انسانی حقوق کے فروغ کے لئے جو ادارے بنائے جاتے ہیں، اس میں انسانی حقوق کمیشن قومی سطح پر موجود ہے۔ این سی ایس ڈبلیو(NCSW) ہے اور چائلڈ رائٹس کمیشن (CRC)بھی موجود ہے۔
“لیکن مذہبی اقلیت کے حقوق کے تحفظ کے لئے جو ادارہ بنایا جاتا ہے وہ عارضی اور نوٹیفکیشن کے ذریعے بنایا جاتا ہے اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔ اسی وجہ سے یہ کمیشن جب بھی تشکیل دیا گیا تو وہ کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا۔”
پیٹر جیکب کہتے ہیں، ہال میں ایک بل اس کمیشن کی تشکیل کے لئے پیش کیا گیا تھا قومی اسمبلی میں لیکن بدقسمتی سے اسے بھی کنفیوز کیا گیا ہے -اس کے اندر کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ ہونا یہ چاہئے کہ اس کو کوئی مذہبی کمیشن نہیں بلکہ انسانی حقوق کے ادارے کے طور پر تشکیل دیا جائے۔”
نیشنل مینارٹی کمیشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران کبیر نے اسے خوش آئند قرار دیا-
“جو ادارے کام کررہے ہیں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے میں ان کے قیام کو خوش آئند سمجھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ان کے کام سے مثبت فرق معاشرے میں پڑے گا۔ جو لوگوں کو احساس دلاتے رہیں گے کہ اقلیتوں کے ساتھ، تھوڑے لوگوں کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ ان کو بھی جینے کا موقع دینا چاہئے یہی شاید ان اداروں کے قیام کا مقصد ہے۔”
پروفیسر مہرداد یوسف نے مینارٹی کمیشن کے مینڈیٹ کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ
اصل میں مینارٹی کمیشن جو ہے وہ بہت عرصے سے بنا ہوا ہے دس پندرہ سالوں سے ۔ اگر ان کی کارکردگی سے معاشرے کے اندر ہم آہنگی پیدا ہورہی ہے۔ توڑ پھوڑ کم ہورہی ہے تو لوگ ایک دوسرے کو انڈر سٹینڈ کرنے لگے ہیں۔ لوگ مل کر بیٹھنے لگے ہیں لوگ ایک دوسرے کو قبول کرنے لگے ہیں تو یہ مینارٹی کمیشن کا پہلا اور سب سے اہم مینڈیٹ ہے۔ مینارٹی کمیشن کو دیکھنا پڑے گا اور اس کو اپنا احتساب کرنا پڑے گا کہ کیا وہ اس مینڈیٹ کو پورا کررہے ہیں۔ اور اس کے لئے ان کے پاس کیا اقدامات ہیں۔ ہمیں ابھی تک یہ چیز کوئی ایسی تو نظر نہیں آرہی۔
مینارٹی کمیشن کے فعال کردار میں کیا چیلنجز ہیں اس بارےمیں کرن جیکب نے کہا
نیشنل مینارٹی کمیشن فعال کردار اتناادا نہیں کرپایااس کے اپنے چیلنجز تھے۔ اور نمبر ون چیلنج جو سننے میں آیا ہے وہ ہے لیک آف ریسورسز
بہت ہی قابل لوگ بیٹھے ہوئے تھے نیشنل مینارٹی کمیشن میں لیکن وہ اپنی خدمات انجام نہیں دے پائے۔ دوسرا اتھارٹی لیول نہیں تھا۔ ان کی لیجسلیشن نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے اس کمیشن کی اتنی سٹرینتھ نہیں تھی۔ باقی کمیشنز کی طرح کہ وہ مسائل کو حل کرپاتا اور فعال طور پر اپنا کردار ادا کرپاتا۔
جیا جگی نے مینارٹی کمیشن کے افعال و کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ
پاکستان میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں کے تحفظ اور برابری کے حقوق کے لئے ضروری ہے کی ایک ایسا نیشنل کمیشن آف مینارٹی بنایا جائے جس میں ایسے لوگ ہوں جو یہ انشور کر سکیں کہ اقلیتوں کو برابری کے حقوق مل رہے ہیں،این سی ایم جو 2020میں حکومت کی طرف سے بنایا گیابدقسمتی سے وہ ایڈہاک کمیٹی ہی تھی۔این سی ایم میں جو لوگ ہوں وہ میرٹ پر ہوں۔ایسے لوگ نہ ہوں جو religious impact ڈال سکیں کیونکہ یہ interfaith کمیٹی یا کمیشن نہیں ہے۔میرا نہیں خیال کی کوئی بہتر کارکردگی رہی ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ ہم آواز اٹھا رہے ہیںکہ کیو ں اقلیتوں کے لئے مینارٹی رائٹس کمیشن ہونا ضروری ہے جو خود مختار ہو پارلیمنٹ میں قانون سازی سے قائم کیا گیا ہوتا کہ اصل میں اپنا کردار ادا کر سکے ۔